نئی دہلی ، 3 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے ایودھیا اراضی تنازعہ کیس میں ایک ہندو فریق کو نئے ثبوت کے طور پر کوئی بھی مواد پیش کرنے یا اس پر انحصار کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ وہ سماعت کے اس مرحلے پر جو جمعرات کو 36 ویں روز میں داخل ہوگئی، ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی والی بنچ نے کہا، ’’محض اس وجہ سے کہ پانچ ججوں کی دستوری بنچ کی نشست ہے، آپ اس مرحلے پر کوئی نئے مواد کو سامنے نہیں لاسکتے ہو۔ دستوری بنچ اس کیس کی سماعت اس معاملے کی اہمیت اور حساسیت کی وجہ سے کررہی ہے‘‘۔ بنچ نے ایک ہندو فریق کے نمائندہ سینئر ایڈوکیٹ پی این مشرا کو ’اسکند پُرانا‘ پر مبنی ’رام سیتو‘ کے تقدس کا حوالہ دینے سے روک دیا۔ رام سیتو جو دیومالائی تاریخ کا ایک پل ہے جسے آڈمس برج بھی کہتے ہیں، ایسا مانا جاتا ہے کہ اسے لارڈ رام نے لنکا پہنچنے کیلئے بنایا تھا۔ یہ پل ٹاملناڈو کے جنوبی مشرقی ساحل کے پاس پامبن جزیرہ یا رامیشورم آئی لینڈ اور موجودہ سری لنکا کے شمال مغربی ساحل کے پاس منّار آئی لینڈ کے درمیان چونے کے پتھروں کا طویل سلسلہ ہے۔ بنچ نے جس میں جسٹس اسی اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر بھی شامل ہیں، کہا کہ وہ زیردوراں معاملے میں کوئی بھی نئے ثبوت کا حوالہ ریکارڈ میں شامل نہیں کرے گی۔ مشرا کے دلائل کو روکتے ہوئے بنچ نے کہا کہ اس مرحلے پر جب فریقین دیگر کی جانب سے پیش کردہ دلائل پر جواب دے رہے ہیں، وہ ایسے کوئی بھی تازہ مواد پر غور نہیں کرے گی جسے قبل ازیں پیش نہیں کیا گیا۔ بنچ نے یہ ریمارکس کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون کے اعتراض کا نوٹ بھی لیا ، جنھوں نے کہا کہ اس طرح کے کوئی دلائل پہلے پیش نہیں کئے گئے اور نا الہ آباد ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران اس مواد کو سامنے لایا گیا تھا۔ قبل ازیں ہندو فریقوں نے سپریم کورٹ میں دعویٰ کیا کہ رام جنم بھومی۔ بابری مسجد ملکیتی تنازعہ میں 2.77 ایکڑ اراضی پر مسلم فریق کے دعوے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی جانب سے کھدائی کے نتیجے سے رد ہوجاتے ہیں، کیونکہ منہدمہ مسجد کے نیچے ’زبردست ڈھانچہ‘ کے آثار پائے گئے۔