بابری مسجد انہدام کیس کی سماعت کو 18 اکتوبر تک مکمل کرلینے کا عہد کرنے والے جج چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی نے اپنے ریٹائرمنٹ سے قبل اس کیس کا فیصلہ کرنے کا بھی عزم ظاہر کیا ہے۔ اگر ان کے ریٹائرمنٹ تک یہ کیس حل نہ ہو تو پھر بابری مسجد انہدام کیس کی سماعت ازسرنو شروع ہوگی۔ اس مذہبی اور ہندوستانی مسلمانوں کے حساس مسئلہ کو عدالت کی راہداریوں میں یوں ہی بھٹکتے رہنے دیا جائے تو پھر یہ ایک سیاسی چالاکی کا حصہ ہوگا۔ سپریم کورٹ میں جاریہ سماعت کے دوران جن باتوں کو سامنے لایا گیا ہے، اس کے بعد کیس کو حتمی طور پر ختم کرنے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سپرد ہوجاتی ہے۔ رام جنم بھومی اور بابری مسجد کے حق ملکیت تنازعہ پر امکان غالب ہے کہ نومبر کے وسط میں فیصلہ سامنے آجائے لیکن فیصلہ نہ ہوسکا تو پھر یہ کیس سپریم کورٹ کیلئے چیف جسٹس کی بینچ پر جائے گا اور کیس کی روزانہ سماعت کے لئے ایک نیا مرحلہ شروع کیا جائے گا۔ مرکز میں وزیراعظم نریندر مودی کی موجودہ دوسری میعاد کے دوران ایودھیا تنازعہ کی یکسوئی کی توقع کرنے والوں کے لئے یہ بھی فکر لاحق ہے کہ اگر مودی حکومت اس کیس کی یکسوئی میں دلچسپی نہ دکھائی تو پھر اس کو سیاسی آکسیجن کے طور پر استعمال کرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے اس مرتبہ کیس کی سماعت کو پوری ایمانداری سے شروع کیا ہے اور 18 اکتوبر تک اسے مکمل کرتے ہوئے فیصلہ سنانے کا بھی تہیہ کرلیا ہے، یہ اچھی بات ہے کہ کیس کے تمام فریقین کی دلیلوں اور بحث و مباحث ، قانونی و تاریخی نظریہ کی بنیاد پر جب فیصلہ ہوجائے تو ہر ایک فریق کو عدالت کے فیصلہ کا احترام کرنا پڑے گا لیکن سوال یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ میں1991ء میں چار تاریخ دانوں کی تیار کردہ رپورٹ جس میں بابری مسجد کے مقام پر رام کی جائے پیدائش ہونے کی حجت کو مسترد کردیا گیا ہے ، کو قبول نہیں کیا ہے کہ تو اس ایک نکتہ پر ہی بحث چھڑ جائے تو ایک طویل مدت درکار ہوگی۔ عدالت عالیہ نے تاریخ دانوں کی رپورٹ کو صرف ایک بہترین رائے مانا ہے لیکن اسے قانونی سچائی کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ ایودھیا کیس میں فیصلہ کرنے کے لئے یہ رپورٹ ایک ثبوت نہیں ہوسکتی۔ سپریم کورٹ میں کیس کو اس لئے لایا گیا کیوں کہ الہ آباد ہائیکورٹ کے 30 ستمبر 2010ء کے فیصلے کو چیلنج کیا جاسکے، جس نے 2.77 ایکڑ کی متنازعہ اراضی کو سنی وقف بورڈ نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کئے جانے کا حکم دیا تھا۔ جہاں تک چار تاریخ دانوں آریکس نرے، ایم اطہر علی، ڈی این جھا اور سورج بھائی کی تیار کردہ رپورٹ کا سوال ہے ، اس کو صرف ایک رائے کے طور پر قبول کرکے سپریم کورٹ نے اسے فیصلہ سنانے کے لئے اہم دستاویز تسلیم کرنے سے اس لئے انکار کیا تھا کیوں کہ رپورٹ پر چار کے منجملہ صرف تین تاریخ دانوں نے دستخط کئے، لیکن ڈی این جھا نے دستخط نہیں کیا تھا، تاریخ دانوں نے بابری مسجد کی جگہ کو غیرمتنازعہ ثابت کرنے دن رات محنت کرکے رپورٹ تیار کی لیکن جب اس رپورٹ کو ایک بنیادی دستاویزی شکل دینے کی بات آئی تو ایک تاریخ داں نے دستخط نہ کیا، دیگر تمام تین تاریخ دانوں کی تاریخی تحقیق کیلئے کی گئی محنت کو رائیگاں کردیا حالانکہ ان تاریخ دانوں کو یہ رپورٹ تیار کرنے کا حکم ہیں، عدالت نے ہی دیا تھا، جب عدالت اپنے ہی حکم کے مطابق رپورٹ تیار کرنے والوں کی سچائی کو صرف ایک رائے قرار دیتی ہے تو پھر ایک نئی بحث چھڑنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اگر تاریخ دانوں کی یہ رپورٹ صرف ایک رائے ہے تو عدالت نے اس چار رکنی ٹیم کو تشکیل دینے کی زحمت ہی کیوں کی۔ یہ رپورٹ تاریخ کی ایک اہم بات ہے جس کو سراسر طور پر نظرانداز کرتے ہوئے قانونی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کی گئی ہے۔ بہرحال اب جبکہ سپریم کورٹ نے اس کیس کی روز بہ روز کی اساس پر سماعت کرتے ہوئے کارروائی کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ کیس اب آخری مرحلے میں ہے تو پھر اسے ایک اہم ذمہ داری کیوں کر پوری کی جانی چاہئے لیکن درمیان میں عدالت نے ثالثی اور صلح صفائی کا بھی موقع تلاش کرنے کی گنجائش فراہم کی ہے تو پھر تمام فریقین کو اس مسئلہ پر رکھنے کا موقع دیا گیا ہے۔ اگر فریقین نے آپس میں صلح صفائی کی راہ بھی نکالی ہے تو اسے عدالت کے سامنے بھی لایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی ایک طرف ثالثی کے عمل کو جاری رکھنے کی ترغیب دے رہے ہیں تو دوسری طرف سماعت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، اگر دوستانہ تصفیہ کی صرف توقع کی جاسکتی ہے۔
