سی ایل پی لیڈر بھٹی وکرمارکا کے علاوہ دیگر قائدین سے سیاسی صورتحال پر غور، ٹی آر ایس حلقوں میں ہلچل
حیدرآباد: سابق وزیر ایٹالہ راجندر نے سیاسی حکمت عملی طئے کرنے کیلئے مختلف جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتوں کا آغاز کیا ہے ۔ سی ایل پی لیڈر بھٹی وکرمارکا سے ملاقات کے دوسرے دن راجندر نے ٹی آر ایس کے رکن راجیہ سبھا ڈی سرینواس اور ان کے فرزند بی جے پی رکن پارلیمنٹ ڈی اروند سے ملاقات کی۔ یہ تینوں ملاقاتیں سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بن چکی ہے جبکہ برسر اقتدار ٹی آر ایس نے راجندر کے سیاسی منصوبوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے انٹلیجنس حکام کو چوکس کردیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ راجندر اپنا کوئی بھی قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ انہیں بی جے پی اور کانگریس کی جانب سے پیشکش کی گئی لیکن وہ عوام کی نبض کے مطابق فیصلہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ سی ایل پی لیڈر بھٹی وکرمارکا نے کل شام راجندر سے ملاقات کی تھی ۔ ملاقات کے بعد بھٹی وکرمارکا نے کہا کہ یہ خیر سگالی ملاقات رہی لیکن راجندر کے قریبی ذرائع کے مطابق دونوں نے تلنگانہ کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ۔ دلتوں اور پسماندہ طبقات سے ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ کیا گیا ۔ سابق رکن پارلیمنٹ جتیندر ریڈی اور سابق وزیر اے چندر شیکھر نے بھی راجندر سے ملاقات کی ہے۔ سابق وزیر نے ٹی آر ایس کے رکن راجیہ سبھا ڈی سرینواس سے ان کی قیامگاہ پہنچ کر ملاقات کی۔ دونوں کے درمیان دو گھنٹے سے زائد تک مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال رہا۔ واضح رہے کہ ڈی سرینواس بھی ان دنوں کے سی آر سے ناراض ہیں اور گزشتہ ایک سال سے پارٹی سرگرمیوں سے خود کو علحدہ کرچکے ہیں۔ ملاقات کے دوران ڈی سرینواس کے فرزند اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ڈی اروند بھی شامل ہوگئے ۔ یہ ملاقات کافی اہمیت کی حامل ہے۔ بی جے پی کی جانب سے راجندر کو پارٹی میں شمولیت کی پیشکش کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈی سرینواس پارٹی کے دیگر ناراض قائدین سے ربط میں ہیں تاکہ راجندر کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی طئے کی جاسکے۔ حالیہ عرصہ میں سابق رکن پارلیمنٹ کونڈہ وشویشور ریڈی اور سابق ارکان مقننہ راملو نائک اور ریویندر ریڈی نے راجندر سے ملاقات کی تھی ۔ بتایا جاتا ہے کہ راجندر عنقریب بی جے پی کے ریاستی صدر بنڈی سنجے اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ریونت ریڈی سے ملاقات کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سرگرم مشاورت کے بعد راجندر اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔