ایڈورپا کی استعفی کی پیشکش ؟

   

Ferty9 Clinic

ایڈورپا کی استعفی کی پیشکش ؟
جنوبی ہند میں بی جے پی کی واحد اقتدار والی ریاست کرناٹک میں بی جے پی کیلئے سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ پارٹی کی ریاستی یونٹ میں چیف منسٹر بی ایس ایڈورپا کے خلاف بی جے پی کے کئی ارکان اسمبلی ناراض ہیں اور بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ چیف منسٹر کے خلاف کھلے عام بیان بازیاں کی جا رہی ہیں۔ ان پر اقربا پروری اور وزراء کے محکمہ جات میں مداخلت کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ چیف منسٹر کے ساتھ ان کے فرزند پر بھی سرکاری کام کاج میں مداخلت کے الزامات ہیں۔ کئی قائدین چیف منسٹر اور ان کے فرزند کی سرگرمیوں سے خوش نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ریاست کی قیادت میں تبدیلی کی جائے ۔ حالانکہ اس پر ابھی تک پارٹی کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان نہیں دیا گیا ہے لیکن یہ اطلاعات ہیں کہ چیف منسٹر ایڈورپا نے کل وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرتے ہوئے استعفی کی پیشکش کردی ہے ۔ انہوں نے استعفی کیلئے اپنی خرابی صحت کو وجہ قرار دیا ہے ۔ چیف منسٹر کا یہ دورہ دہلی اس لئے بھی اہمیت کا حامل رہا ہے کیونکہ وہ اس دورے میں اپنے فرزند کو ساتھ لے کر گئے تھے ۔ وہ پارٹی اور سرکاری کام کاج میں مشورے کیلئے اگر دہلی جاتے تو تنہا جاتے تاہم وہ اپنے فرزند کو ساتھ لے گئے تھے اور اسی وقت سے کہا جارہا تھا کہ چیف منسٹر کیلئے ریاست میں حالات درست نہیں ہیں اور ان کیلئے کام کاج مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ ان کو تبدیل کرنے کے مطالبہ میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ چیف منسٹر نے کل وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد ریاستی قیادت میں تبدیلی کی قیاس آرائیوں کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس تعلق سے انہیں کچھ علم نہیں ہے ۔ وہ نہیں جانتے کہ کوئی ناراض سرگرمیاں بھی چل رہی ہیں۔ تاہم آج انہوں نے وزیر داخلہ امیت شاہ ‘ بی جے پی صدر جے پی نڈا اور دوسروں سے ملاقات کی ہے اور اس کے بعد ذرائع سے توثیق ہوچکی ہے کہ چیف منسٹر نے استعفی کی پیشکش کردی ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ در اصل پارٹی قیادت نے ہی ایڈورپا کو استعفی کا مشورہ دیا ہے اور ان کی عزت و احترام کی خاطر ان کی خرابی صحت کی وجہ پیش کی جا رہی ہے ۔
ایڈورپا کی تبدیلی کیلئے بی جے پی نے راست طریقہ اختیار کرنے کی بجائے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ایڈورپا خرابی صحت کی وجہ سے خود مستعفی ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح اترپردیش میں آدتیہ ناتھ بی جے پی کا واحد بڑا چہرہ ہیں اسی طرح کرناٹک میں ایڈورپا ہی بی جے پی کا واحد چہرہ ہیں۔ دوسرے کئی قائدین حالانکہ خود کو طاقتور قرار دیتے ہیں لیکن وہ عوام کے ووٹ حاصل کرنے میں اس حد تک کامیاب نہیں ہوسکتے جتنے کامیاب اب تک بھی ایلاورپا رہے ہیں۔ بی جے پی اگر ایڈورپا کو تبدیل کرتے ہوئے کسی دوسرے لیڈر کو چیف منسٹر کا عہدہ دیتی بھی ہے تب بھی ریاست کی سیاست میں ایڈورپا کے اثر و رسوخ کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم جس طرح سے ان کے خلاف بی جے پی حلقوں میں ناراضگی پیدا ہوگئی تھی اور بغاوت کی جا رہی تھی اس کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ ایڈورپا کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرے ۔ حالانکہ اس تعلق سے نہ ابھی بی جے پی نے کوئی واضح بیان دیا ہے اور نہ ہی خود چیف منسٹر نے کوئی تبصرہ کیا ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ اگر ریاست میں کوئی تبدیلی کی جائے گی تو یہ 26 جولائی تک ہوجائے گی کیونکہ 26 جولائی کو کرناٹک میں ایڈورپا حکومت کے دو سال مکمل ہوجائیں گے ۔ دو سال کی تکمیل کے موقع پر ایڈورپا اپنی صحت میں خرابی کو وجہ بناتے ہوئے وزارت اعلی سے استعفی پیش کردیں گے اور ریاست میں نئے چیف منسٹر کے تقرر کی راہ ہموار کریں گے ۔
گذشتہ تقریبا ایک سال سے ریاستی بی جے پی میں اختلافات پیدا ہونے لگے تھے اور گذشتہ چند مہینوں میں یہ اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے ۔ بی جے پی مرکزی قیادت کی جانب سے چیف منسٹر کے خلاف کھلے عام بیان بازی کرنے والے قائدین پر کسی طرح کی روک نہیں لگائی گئی تھی اور نہ ہی ان کی سرزنش کی گئی تھی ۔ اس سے یہی اشارے مل رہے تھے کہ بی جے پی قیادت بھی ریاست کی قیادت میں صورتحال کے مطابق تبدیلی کی ہی خواہاں ہے ۔ چیف منسٹر کو استعفی کی ہدایت دینے کی بجائے ان کیلئے ایک محفوظ راستہ فراہم کیا گیا ہے تاکہ اپوزیشن کو ان پر تنقیدیں کرنے کا موقع نہ مل سکے ۔ ایڈورپا کی تبدیلی کے ذریعہ بی جے پی ناراض سرگرمیوں پر تو قابو پا سکتی ہے لیکن اس کیلئے آئندہ عوام سے رجوع ہونا اور عوام کی تائید حاصل کرنا بالکل بھی آسان نہیں رہ جائے گا ۔

ٹیکہ اندازی پر توجہ ضروری
کورونا وائرس کی دوسری لہر کے اثرات جیسے جیسے کم ہونے شروع ہوئے ہیں ویسے ویسے کچھ گوشوں کی جانب سے تیسری لہر کے اندیشوں کا اظہار بھی کیا جانے لگا ہے ۔ ان اندیشوں کے باوجود ٹیکہ اندازی پر حکام اور عوام دونوں کی توجہ کم ہوگئی ہے ۔ اکثر دیکھا جا رہا ہے کہ لوگ ٹیکہ اندازی سے لا پرواہ ہوتے جا رہے ہیں اور حکومتوں کی جانب سے بھی جو سرگرمی کورونا کی دوسری لہر کے دوران دکھائی جا رہی تھی وہ دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے ۔ حکام کی جانب سے بھی تن آسانی سے کام لیا جا رہا ہے اور جہاں تک عوام کی بات ہے وہ تو روز مرہ کی مصروفیات میں پہلے سے زیادہ مگن ہوگئے ہیں۔ کورونا کے معائنوں اور ٹسٹ کا سلسلہ حالانکہ چل رہا ہے لیکن ٹیکہ اندازی سے توجہ ہٹ گئی ہے ۔ عوام میں شعور بیدار کرنے اور انہیں ٹیکہ لینے کی سمت راغب کرنے کیلئے جو کوششیں سرکاری سطح پر پہلے کی جا رہی تھیں وہ اب دیکھنے میں نہیں آ رہی ہیں۔ عوام کو بھی چاہئے کہ وہ ٹیکہ لینے کیلئے آگے آئیں۔ تیسری لہر کے اندیشوں کو دیکھتے ہوئے ٹیکہ لینے پر توجہ کرنا بہت زیادہ ضروری ہوگیا ہے ۔ آئندہ کے خطرات اور مشکلات سے بچنے کیلئے آج ہی احتیاط کرنا دانشمندی کا تقاضہ ہے ۔