ایک آنسو بھی حکومت کےلیے خطرہ ہے- محاسبہ——– سید فیصل علی

,

   

آسام کے 19 لاکھ سے زائد لوگوں کے نام نیشنل رجسٹر اف سیٹیزن (این آر سی) سے خارج ہونے کے بعد اب پورے ملک میں این آر سی کی تیاریاں ہورہی ہے۔ اہل اسام کے انکھوں کے آنسو تھمے بھی نہیں کہ پورے ملک میں این آر سی کی تلوار لٹکائی جا رہی ہے۔ حالانکہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی حکومت کے اس اقدام کی سخت مذمت کر رہی ہے، وہ وزیر داخلہ امت شاہ سے بھی مطالبہ کر چکی ہے کہ این آر سی سے اخراج شدہ لوگوں کے نام واپس لیا جائے۔ انہوں نے مغربی بنگال میں این آر سی کے نفاذ کا پوری طرح انکار کر دیا ہے، بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی این آر سی کو لے کر معترض ہیں، مگر سیاست کے دوغلے پن کو کیا کہیے! بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی بہار میں این آر سی کے مخالف ہیں۔ مگر اسی حکومت کے ایک وزیر نے بھاگلپور میں کہا کہ بہار میں این آر سی کا نفاذ یقینی ہے، اس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے، ہم امت شاہ کے ساتھ ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ این آر سی کو لے کر بہت سنجیدہ نظر آرہے ہیں، وہ پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ چاہتے ہیں، جب ملک کے وزیر داخلہ یہ کہہ رہے ہو تو یہ بات یقینی ہے کہ این آر سی کی گھنٹی کم از کم ان ریاستوں کے گلے میں ضرور باندھی جائے گی جو بی جے پی کے اقتدار والے ہیں۔ حالانکہ اس بات کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی این آر سی سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ پہلے انگریزوں کی پالیسی تھی کہ پھوٹ ڈالو اور راج کرو اب بی جے پی بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے۔ “وہ ڈراو اور راج کرو” کے رتھ پر سوار ہو کر بی جے پی اپنے اقتدار کی بنیاد مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ فسطائی طاقتیں خاص کر وشو ہندو پرشد، بجرنگ دل وغیرہ دو دہائی سے اس پروپیگنڈہ کا نقارہ بجاتے رہے ہیں کہ بھارت میں ایک کروڑ سے زائد بنگلا دیشی گھس پینٹی سکونت پذیر ہیں۔ بہار بنگال اور اسام انکے خاص نشانہ پر ہیں، اب یہ دائرہ دہلی اور مہاراشٹر تک وسعت اختیار کر چکا ہے ، چنانچہ دہلی میں بھی بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی گھس پیٹیوں کی اقامت کا بھی شگوفہ چھوڑا جارہا ہے، دہلی کے بی جے پی چیف منوج تیواری نے آسام کے بعد اب دہلی میں بھی این آر سی کے نفاذ مطالبہ کیا ہے۔

 سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ این آر سی کی تلوار کے سہارے آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کو متاثر کرنا مقصود ہے، مہاراشٹر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات ڈیکلیر کئے جا چکے ہیں، بہار اور دہلی میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، لہذا این آر سی میں بی جے پی کو فائدہ پہونچنے کی امید ہے۔ این آر سی کے نام پر ملک کی اقلیتوں کے نام کا ٹے جائیں گے، ظاہر ہے کہ آج کے دور میں خوف کی سیاست بی جے پی کی ایک بہت بڑی طاقت ہے، لہذا ملک میں این آر سی کی نفاذ کا نقارہ بجانا جہاں نام نہاد دیش پریم کو تقویت پہونچانا ہے تو دوسری طرف ہندوتوا کی بھی سیاست کرنی ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آسام کے بعد ملک کے دوسرے حصوں میں بھی این آر سی کا شکار غریب طبقہ خاص کر مسلم طبقہ رہے گا۔ مسلمان ایک مرتبہ پھر معتوب ہونگے، اور انکی سیاسی حیثیت کٹھرے میں ہوگی۔

ہم این آر سی کو غلط نہیں سمجھتے اور نہ ہی اسکی اہمیت کا انکار ہے، لیکن این آر سی کے معاملے کو دو چشموں سے دیکھنے کے ہم مخالف ہیں۔ بلاشبہ جو غیر ملکی ثابت ہوئے انہیں ملک بدر ہونا چاہیے، مگر کسی معصوم پر این آر سی کی تلوار لٹکا کر اس کا بنیادی حق سلب کرنے کی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ این آر سی پورے جانچ پڑتال اور عدالتی نظام کی تکمیل تک ایک پیچیدہ مرحلہ بن گیا ہے۔ این آر سی سے خارج ایک غریب اور دیہی علاقوں میں رہنے والا شخص این آر سی کے خرچیلے اور ان تمام مراحل کو کیا وہ طئے کر پائے گا؟

آسام میں 19لاکھ سے زائد افراد این آر سی کی لسٹ سے باہر ہو چکے ہیں، ان میں بارہ لاکھ سے زائد افراد غیرمسلم ہیں، مگر ستم سیاست تو یہ ہے کہ این آر سی سے خارج ان غیر مسلموں کے لیے ار ایس ایس اور حکومت دونوں نرم گوشہ اختیار کرتی ہے۔ مسلمانوں کو چھوڑ کر دیگر کو شہریت دینے کی بات چل رہی ہے، انکے لئے نیا ایکٹ لانے کا منصوبہ ہو رہا ہے، یہ خطرناک روش ہے۔ جو غیر ملکی ہیں انہیں باہر ہی جانا چاہیے، مگر دہرم اور مذہب کے نام پر دو پالیسی کا استعمال ملک کی یکتا اور سالمیت کےلیے خطرہ ہے۔ بے شک ملک میں این آر سی کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایک طبقہ کو ڈرا کر خوف کا ماحول بنا کرکے این آر سی کے نفاذ کی حکمت عملی انصاف کے منافی ہے۔ این آر سی کا نفاذ جانچ پڑتال اور انصاف کے دائرے میں ہونا چاہیے۔

مجھے یاد ہے کہ دو دہائی قبل بہار میں لاکھوں گھس پیٹیوں کی آمد کو لے کر وشو ہندو پردیشد اور بجرنگ دل نے ایک ہوا کہڑا کیا تھا اور بنگلہ دیشی گھس پیٹیوں کی آڑ میں بھی سرکاری انتظامیہ نے مسلم دشمنی کا کھیل کھیلا تھا۔ ارریہ، کشن گنج، پورنیہ اور کٹھیار وغیرہ ہزاروں اہم لوگوں کے نام ووٹر لسٹ سے غائب کر دیے گئے تھے، حالانکہ اس دور کے کشن گنج کے ایم پی جمیل الرحمن مرحوم، ارریہ کے رکن اسمبلی اے حاجی معید الرحمن مرحوم، بہادر گنج کے کئی اراکین اسمبلیاسمبلی اور سابق مرکزی وزیر تسلیم الدین مرحوم کے نام بھی ووٹر لسٹ سے غائب پائے گئے تھے۔ انتظامیہ کی اس متعصب کاروائی پر پورے ملک میں طوفان اٹھ گیا تھا، یہ جگن ناتھ مشرا کا دور تھا، حکومت نے سخت کاروائی کی، وشو ہندو پرشد اور بجرنگ دل کا فتنہ دب گیا۔ مگر اب این آر سی سے ان فتنوں کو تقویت ضرور ملے گی۔

بہرحال ملک میں لٹکی این آر سی کی تلوار سے اقلیتوں میں ایک تشویش کی لہر ضرور ابھری ہے کہ کیا آج کے دور میں وہ انتظامیہ انصاف سے کام لے گی، جو فسطائی فکر ونظر سیاست سے متاثر ہے یا مجبور ہے؟ اسام کا المناک منظر نامہ سب کے سامنے ہے، وہاں کی انتظامیہ کی وجہ سے این آر سی کی جو بری حالات ہیں اسکے تناظر میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ این آر سی میں کتنی خامیاں ہیں۔ انہیں یہ خامیاں دور کرنی چاہیے، کیونکہ کہ این آر سی کا پہلا تجربہ آسام ہے، اگر وہاں یہ تجربہ ناکام ہوگیا، اہل اسام کو انصاف نہیں ملا تو ملک میں این آر سی کا نفاذ خوف و شک کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ ہر مظلوم کی آنکھ میں آنسو ہوگا، مظلوم کی آنسو کی پکار رآئیگاں نہیں جاتی، آنسوؤں کے سمندر میں ہر طاقت ہر سیاست اور ہر حکومت غرقاب ہو جاتی ہے۔ بقول منور رانا۔۔

اک آنسو بھی حکومت کےلیے خطرہ ہے

تم نے نہیں دیکھا آنسو کا سمندر