ملک میںطاقت کا استعمال عام ہوگیا ہے ۔ لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بجائے ان کو موت کے گھاٹ اتارنے پر زیادہ آمادہ ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر ملک کی اقلیتیں اور دلت برادری کے لوگ خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف مظالم اور جرائم میںمسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے حالانکہ حکومت کی جانب سے ان طبقات کی بہتری کے دعوے کئے جاتے ہیں ۔ وقفہ وقفہ سے حکومتوں کی جانب سے دلت طبقات اور برادریوں کیلئے نت نئے اعلانات بھی ہوتے ہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی سماج میں اقلیتوںاور دلتوں کو ان کا جائز مقام نہیں دیا جا رہا ہے ۔ اقلیتوںکے خلاف تو سارے ملک میں نفرت اور بیگانگی کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ۔ ہر مسئلہ میں اقلیتوںکو گھسیٹ کر انہیں بدنام و رسواء کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ کبھی حلال گوشت کے نام پر تو کبھی حجاب کے نام پر ‘ کبھی ان کے لباس کے نام پر تو کبھی کسی اور بہانے سے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ نفرت کے ماحول کے خلاف ملک کی عدالت عظمی نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ اسی طرح ملک میںدلتوں کو نشانہ بنانے کے واقعات بھی عام ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی دلت خواتین کی عصمت ریزی کی جا رہی ہے تو کبھی انہیں کسی اور طرح سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ کہیں انہیں مارپیٹ کرکے ہلاک کیا جا رہا ہے تو کہیں انہیں گولی ماری جا رہی ہے ۔ اس طرح کے بیشتر واقعات ان ریاستوں میںپیش آ رہے ہیں جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے ۔ ان ریاستوں میں مجرمین کو کیفر کردار تک پہونچانے میں کوتاہی برتی جا رہی ہے اور ایک طرح سے انہیں قانون کی گرفت سے بچانے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ۔ تازہ ترین واقعہ مدھیہ پردیش میں پیش آیا ہے ۔ یہ ریاست بھی بی جے پی کے اقتدار والی ہے ۔ یہاں ایک دلت خاندان کے تین افراد کو صبح سویرے گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ۔ پولیس کے بموجب مدھیہ پردیش کے داموہ ضلع میںیہ واقعہ پیش آیا جہاں ایک اعلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد نے کسی خاتون سے چھیڑ چھاڑ کے نام پر ایک دلت خاندان کے تین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ۔
دلتوں اور دیگر طبقات کے خلاف پیش آنے والے اس طرح کے واقعات در اصل سماج میں پیدا ہونے والی نفرت کی ذہنیت کو آشکار کرتے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لاقانونیت کس طرح عروج پر پہونچ رہی ہے ۔ کس طرح سے لوگ قانونی مدد حاصل کرنے کی بجائے اپنے طور پر فیصلے کرنے لگے ہیں اور یہ فیصلے بھی مذہب اور ذات پات کی بنیادوںپر کئے جا رہے ہیں۔ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر قانون کی دھجیاںاڑائی جا رہی ہیں۔ پولیس بھی اس طرح کے واقعات کو کسی عمل کا ردعمل قرار دینے سے بھی گریز نہیںکر رہی ہے اور یہی بات زر خرید میڈیا کے ذریعہ بھی پھیلائی جا رہی ہے ۔ قانون سے کھلواڑ کرنے اور جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں نہ کئے جانے اور انہیںسزا دلانے کی بجائے انہیں سزا سے بچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے ایسا کرنے والوںکی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ ان کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور وہ قانون سے کھلواڑ کرنے لگے ہیں۔ دلتوں اور دیگر پسماندہ اورپچھڑے ہوئے طبقات کے خلاف جرائم کی شرح کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور مرکزی اور ریاستوں کی حکومتیں اس معاملے میں محض زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کا تدارک ہونے کی بجائے ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ سماج کیلئے ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کا ازالہ بہر صورت کیا جانا چاہئے ۔
مدھیہ پردیش میں پیش آنے والا واقعہ بھی اعلی ذات اور دلتوں کے مابین امتیاز اور فرق کرنے والی ذہنیت کا نتیجہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ اگر کوئی مسئلہ پیش بھی آیا ہو تو کسی شہری کو یہ اختیار اور حق نہیں ہے کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے اور اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرے ۔ اس کیلئے پولیس کی مدد لی جاسکتی ہے ۔ عدالتوں کے ذریعہ انصاف حاصل کیا جاسکتا ہے اور عدالتوں کے ذریعہ ملزمین کو کیفر کردار تک پہونچایا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی کی حکومتوں میںدلتوں پر اس طرح کے مظالم اور جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ تشویش کی بات ہے اور ملک کے عوام کو اس بات کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ خود بی جے پی کو چاہئے کہ وہ اپنی حکومتوں کو دلتوں کے خلاف مظالم کی روک تھام کیلئے پابند کرے اور سماج کے ہر طبقہ کے ساتھ انصاف کیا جائے ۔