ایک بات

   

جاویدہ بیگم
بڑی سے بڑی گتھی آسانی سے سلجھ جاتی ہے مگر بعض وقت ایک معمولی سی بات بھی سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے ، وہ ایک سوالیہ نشان بن کر ذہن پر اس طرح سوار رہتی ہے جیسا کہ اس کا سمجھنا بیحد ضروری ہو جبکہ زندگی میں رات دن ایسے مسائل سامنے آتے ہیں جن پر توجہ دینا ضروری ہوتا ہے مگر پتہ نہیں کیوں بعض وقت ذہن ایک معمولی سی بات میں الجھ کر رہ جاتا ہے ۔ یہ کوئی نئی بات ہے نا غیر معمولی بات ہے ، جو انی کے بعد بڑھاپا آتا ہے اور بڑھاپے کے بعد جوانی دوبارہ نہیں آتی اور نہ انسان ہٹا کٹا کڑیل جوان نہیں بن سکتا ۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ انسان کی قوتیں زوال پذیر ہوتی ہیں۔ آج وہ جیسا کچھ ہے آنے والے دنوں میں وہ اس سے بہترنہیں ہوسکتا ۔ یہ ایسی بات ہے جس کو ہم سب کچھ طرح جانتے ہیں کیونکہ یہ بات ہمارے مشا ہدہ میں برابر آتی رہتی ہے ۔ جوان کو بوڑھا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر کسی بوڑھے آدمی کو جوان ہوتے ہوئے ہم نے کبھی نہیں دیکھا ۔ پھر کیا بات ہے اچھے خاصے پڑھے لکھے سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد ڈھلتی عمر کے ساتھ اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر تمام ذمہ داریوں سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔ تمام سوالات کا ان کے پاس ایک ہی جواب ہوا کرتا ہے ۔ اب وہ پہلی سی قوت نہیں رہی پھر اپنی مجبوریوں کی ایک لمبی چوڑی داستان سنادیں گے ۔ اس میں سرفہرست پیروں اور گھٹنوں کا درد ہوگا ۔ ان لوگوں کو کبڈی کے مقابلے میں شریک ہونا تو نہیں ہوتا اور نہ سبل پھوڑے کا کام کرنا ہوتا ہے ۔ یہ دور مشینی دور ہے ۔ بڑے سے بڑا کام گھر بیٹھے انجام دیا جاسکتا ہے ۔ یہ اپنے آپ کو مجبور سمجھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والے کیا سمجھ کر بیٹھے رہتے ہیں ؟ یہ عام سی بات جو برابر مشاہدہ میں آتی ہے ، مگر سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ کس انتظار میں بیٹھے بیٹھے صبح سے شام کرتے رہتے ہیں ؟ پھر سے دوبارہ جوان ہونے کے انتظار میں یا موت کے انتظار میں ؟ نادان سے نادان انسان بھی ایسی بے وقوفی کی بات سوچ نہیں سکتا کہ وہ ہٹا کٹا کڑیل جوان بنے گا ۔ اب رہا موت کا انتظار ، موت کا انتظار کرنے والا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ خاص کر وہ جو موت کے بعد کی دائمی زندگی کا واضح تصور رکھتا ہو اور اس پر ایمان بھی رکھتا ہو۔ ایک امتحان ہال میں بیٹھا ہوا طالب علم جو امتحان میں کامیابی چاہتا ہے جبکہ وہ جانتا بھی ہو کہ اس کامیابی پر ہی اس کی دائمی زندگی کی فلاح و کامرانی کا انحصار ہے ۔ اس کامیابی کے نتیجے میں ملنے والے انعام و اکرام کو بھی جانتا ہو ، اس انعام و اکرام کو پانے کی دلی خواہش بھی رکھتا ہو۔ وہ امتحان ہال میں بیٹھ کر ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرے گا ۔ ہر گزرنے والا لمحہ اس کو احساس دلائے گا کہ وہ گزر رہا ہے ۔ یہ احساس اس میں تیزی پیدا کرے گا ، وہ اپنی پوری قوت کو جمع کر کے تیزی سے قلم چلانے لگے گا ، جب تک اس کے ہاتھ سے پرچہ چھین نہ لیا جائے وہ لکھتے رہے گا ۔ کسی قسم کی تھکن کا احساس اس کو ہو نہ پائے گا ۔ بس اس کے سر پر ایک ہی دھن سوار رہے گی۔ دم آخر تک وہ لکھتا رہے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ انسان اپنے آپ کو مجبور و معذور سمجھ کر اپنے ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے پہلو تہی کرتا ہے ؟
انسان بڑا آرام طلب اور محنت سے جی چرانے والا ہوتا ہے ۔ ناموافق حالات سے بہت جلد ما یوس ہوجاتا ہے، ہمت ہار بیٹھتا ہے ۔ انسان کا نظر آنے والا ہی دشمن نہیں ہوتا بلکہ نظر نہ آنے والالا ایک اور دشمن بھی ہوتا ہے ۔ یعنی انسان کے دو دشمن ہوتے ہیں، ایک داخلی اور ایک خارجی ۔ مایوسی ایک ایسا داخلی دشمن ہے جو انسان پر اندر سے حملہ کرتا ہے اور اسے اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے ۔ روحانی قوت وہ مضبوط قلعہ ہے جو مایوسی کے لشکر کو شکست دے سکتا ہے ۔ دم آخر تک انسان کو مایوسی کا شکار بننے نہیں دیتا۔ مشہور اسلامی ریاضی داں ’’البیرونی‘‘ ان کا ہاتھ کبھی قلم سے اور ان کا دل کبھی فکر علم سے فارغ نہ ہوتا تھا ۔ ان کی وفات کا واقعہ ان کے ہمعصر ابوالحسن بن عیسی اس طرح بیان کرتے ہیں۔ البیرونی کے وفات کے وقت جب وہ حاضر تھے نزع کا عالم تھا ۔ شدت کی تکلیف تھی طبیعت میں گھٹن تھی ، اس حالت میں دریافت کیا ’’تم نے ایک دن جدات فاسدہ (نانیوں) کی میراث کا مسئلہ مجھے کس طرح بیان کیا تھا ‘‘ ۔ علی بن عیسیٰ نے کہا ’’کیا تکلیف کی اس شدت میں بھی بتاؤں‘‘؟ البیرونی نے جواب دیا ’’دنیا سے اس مسئلہ کا علم لے کر رخصت ہوں، کیا یہ اس سے بہترین ہے کہ اس سے جاہل ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ چنانچہ نزع کی اس حالت میں البیرونی نے مسئلہ علی بن عیسیٰ سے سن کر یاد کرلیا ۔ کچھ ہی دیر کے بعد البیرونی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ جسم کی قوت سے زیادہ ایمان کی قوت قلبی شجاعت کارگر ہوتی ہے ۔ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’تمہارے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہے ، معلوم ہوا کہ قیامت برپا ہوری ہے تو اپنے ہاتھ کا پودا زمیں میں لگادو‘‘۔ دم آخر تک کام کرنا ہے ۔ کسی لمحے کو بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ سوچ کر ملے ہوئے لمحات کا ضائع نہیں کرنا چاہئے کہ یہ پودا بڑھ کر تناور درخت بن کر ثمر آور ہونے میں ایک لمبی مدت درکار ہے ۔ اب جبکہ قیامت برپا ہوری ہے ۔ پودا لگانے کی اس محنت سے حاصل کیا ۔ زندگی کا ہر لمحہ ا پنی ایک قدر و قیمت رکھتا ہے اور ہر لمحے کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی ۔ اس کو اندیشوں و ما یوسی کا شکار ہوکر ضائع تو نہ کرنا چاہئے ۔ پھر کیا بات ہے ، زندگی کے بہت سے ماہ و سال اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے ضائع کرتے رہتے ہیں۔ یہ عام سی نظر آنے واالی بات ایسی تو نہیں جس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کیا جائے ؟