آپ اپنی ہوس میں جب ارزاں ہوا
وقت کی آنکھ سے گرگیا آدمی
ملک کی نو تشکیل شدہ پارلیمنٹ میں عوامی مسائل پر مباحث کرنے اور غور و خوض کے بعد فیصلے کرنے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور خاص طور پر مودی حکومت نے اپنی سابقہ روایات کو ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ایوان کے وقار کو بحال کرتے ہوئے پارلیمانی روایات اور جمہوری اصولوں کے مطابق کام کرنے کی بجائے پارٹی کے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے پارلیمنٹ کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس کی مثال ایمرجنسی سے متعلق قرار داد کی ایوان میں پیشکشی ہے ۔ پارلیمنٹ میں شائد یہ پہلا موقع ہے جب ایمرجنسی پر قرار داد پیش کی گئی ہے اور وہ بھی نئی حکومت کے تشکیل پاتے ہی سب سے پہلا کام حکومت کی جانب سے یہی کیا گیا ہے ۔ حالانکہ نئی پارلیمنٹ میں نئے طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے تعاون و اشتراک پر مبنی سیاست کی جانی چاہئے تھی ۔ خود وزیر اعظم نے حلف لیتے ہوئے یہی دعوی کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اتفاق رائے پیدا کرنے پر توجہ دیں گے اور اتفاق رائے سے حکومت چلانے پر توجہ دی جائے گی ۔ تاہم حکومت نے اپنے قول و فعل میں تضاد کا ثبوت دیتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل پر ہی زیادہ توجہ دے گی اور ایوان کی روایات وغیرہ کا پاس رکھنے کیلئے وہ تیار نہیں ہے ۔ بی جے پی در اصل کانگریس کو نشانہ بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اورا س کیلئے پارلیمنٹ کا بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ایمرجنسی یقینی طور پر آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب رہا ہے اور اس کی کوئی بھی حمایت نہیںکرسکتا ۔ تاہم ایمرجنسی کو گذرے ہوئے بھی نصف صدی کا عرصہ بیت گیا ہے ۔ اس کے علاوہ اندرا گاندھی کو اپنی حیات میں ایمرجنسی کے فیصلے کی سزا بھی ملک کے عوام نے دیدی تھی ۔ اب اس مسئلہ کو ایک بار پھر تازہ کرتے ہوئے کانگریس کو نشانہ بنانا بی جے پی کے سیاسی عزائم کا حصہ ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی ایسا کرنے کیلئے آزاد بھی ہے تاہم اس کیلئے ملک کی پارلیمنٹ کو استعمال کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا ہے اور پارلیمنٹ کو سیاسی مفاد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا گیا ہے ۔
مودی حکومت کی سابقہ دو معیادوں میں یہ وطیرہ رہا ہے کہ ملک و قوم کو درپیش سنگین مسائل پر بات کرنے یا ایوان میں مباحث کروانے اور اپوزیشن کی رائے کا احترام کرنے کی بجائے محض توجہ ہٹانے کی سیاست پر کام کیا گیا ہے ۔ ملک کی معیشت کی ابتر حالت کی بات کرنے کی جہاں کوشش کی جاتی وہاں کوئی دوسرا مسئلہ موضوع بحث بنادیا جاتا ۔ جب ملک کی سرحدات کے تحفظ کی بات کی جاتی تو پاکستان کا تذکرہ کیا جاتا ۔ کہیں بیروزگاری کا مسئلہ اٹھایا جاتا تو رام مندر کا تذکرہ کیا جاتا ۔ کہیں دس سال حکومت کی کارکردگی پرسوال ہوتا تو منگل سوتر چھینے جانے کا خوف پیدا کیا جاتا رہا ہے ۔ ہمیشہ سے بی جے پی اور مودی حکومت نے توجہ ہٹانے کیلئے ہی کام کیا ہے ۔ بنیادی مسائل پر توجہ کرتے ہوئے ان کی یکسوئی پر کوئی بات چیت نہیں کی گئی ۔ اپوزیشن کو اس طرح کے مسائل پر اظہار خیال کا کوئی موقع نہیں دیا گیا ۔ پارلیمنٹ میں موضوع اٹھانے کی کوشش کو بھی روک دیا گیا ۔ ارکان کو یا تو ایوان سے معطل کردیا گیا یا پھر اپوزیشن ارکان کے مائیک بند کردئے گئے ۔ مسائل کا راست طور پر جواب دینا کبھی بھی مودی حکومت یا بی جے پی کا وطیرہ رہا ہی نہیں ۔ تیسری معیاد میں نئی عوامی تائید کے ساتھ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی مودی اور ان کی حکومت کا وطیرہ یہی رہ گیا ہے اور وہ توجہ ہٹانے کی سیاست ہی کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس بار حالانکہ مسائل کچھ مختلف ہوسکتے ہیں لیکن حکومت کا طرز عمل سابقہ ہی برقرار دکھائی دیتا ہے ۔
اب جبکہ ملک بھر میں NEET امتحان کے پرچہ جات کے افشاء کا مسئلہ توجہ کا طالب ہے ۔ اس کے ذریعہ لاکھوں نوجوانوں اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ ہوا ہے ۔ کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایوان میں یہ مسئلہ اٹھائے جانے کی تیاری کی جا رہی ہے ایسے میں بی جے پی کے پاس ان سوالات کے کوئی جواب نہیں ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ گودی میڈیا کے ذریعہ ساری توجہ اس مسئلہ سے ہٹ جائے ۔ اسی لئے ایمرجنسی پر قرار داد پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہے ۔ اب بھی یہ واضح ہوگیا ہے کہ مودی حکومت ملک کے نوجوانوں کے مستقبل پر سنجیدہ نہیں ہے بلکہ موقع پرستانہ سیاست ہی کو ترجیح دے رہی ہے ۔