ایک شخص کے نکاح میں رہتے ہوئے دوسرا نکاح

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چوبیس سالہ زید نے انیس سالہ ہندہ سے ۱۱؍ اپریل ۲۰۱۱ء کو دوگواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرتے ہوئے نکاح کیا اور دونوں کے درمیان صحبت بھی ہوئی۔ ہندہ کے والدین نے اس نکاح کو غلط کہہ کر ۱۴؍ مارچ ۲۰۱۴ء کو ہندہ کا نکاح دوسرے شخص سے کروادیا۔ جبکہ زید نے نہ ہندہ کو طلاق دیا اور نہ ہی کوئی خلع کی کاروائی ہوئی۔
ایسی صورت میں ہندہ کے دونوں نکاح کے متعلق کیا حکم ہے ؟
جواب : شرعاً عاقل بالغ لڑکا اور عاقل بالغہ لڑکی دوگواہوں کے روبرو ایجاب و قبول کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ فتاوی عالمگیری جلد اول کتاب النکاح ص ۲۶۷ میں ہے : وأما رکنہ فالایجاب والقبول کذا فی الکافی۔ والایجاب ما یتلفظ بہ اولا من أی جانب کان والقبول جوابہ ھکذا فی العنایۃ ۔ وأما شروطہ فمنھا العقل و البلوغ والحریۃ … ومنھا سماع کل من العاقدین کلام صاحبہ … ومنھا الشہادۃ … ومنھا سماع الشہاھدین کلامھما معا۔ پس بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں زید اور ہندہ نے اصالۃ دوگواہوں کے روبرو ایجاب وقبول کرتے ہی ۱۱؍اپریل ۲۰۱۱ء کو دونوں میاں بیوی ہوگئے۔ ہندہ کے والدین کا اعتراض درست نہیں۔
۲۔ ہندہ کا زید کے عقد میں رہتے ہوئے کسی دوسرے شخص کو لاعلم رکھ کر جو نکاح کیا گیا وہ فاسد ہے۔ نکاح فاسد کا علم ہوتے ہی دونوں کا فوراً علحدہ ہونا لازم ہے۔ اور اس متارکت کے لئے ہندہ اور انکے دوسرے عاقد میں سے کسی ایک کا بھی ’’میں نے تمہیں چھوڑ دیا‘‘ کہنا کافی ہے۔ رد المحتار جلد ۲ ص ۶۵۹ میں ہے : (قولہ نکاحا فاسدا) ھی المنکوحۃ بغیر شھود ونکاح امرأۃ الغیر بلا علم بأنھا متزوجۃ اور ردالمحتار بر حاشیہ رد المحتار جلد ۲ ص ۳۸۱ میں ہے : (و) یثبت (لکل واحد منھما فسخہ ولو بغیر محضر من صاحبہ دخل بھا أولاً) فی الأصح خروجا عن المعصیۃ۔ نکاح فاسد میں قبل خلوت صحیحہ و صحبت تفریق ہو تو نہ عاقدہ کو مہر ملیگا اور نہ اس پر کوئی عدت ہوگی۔ اور وہ پہلے شوہر کی بیوی رہیگی۔ اور اگر بعد خلوت صحیحہ و صحبت تفریق ہو تو عورت پر عدت لازم ہے اور مہر مقررہ اور مہر مثل میں جو کم ہے اس کی ادائی عاقد پر لازم ہے۔ فتاوی عالمگیری جلد اول باب النکاح الفاسد میں ہے : اذا وقع النکاح فرق القاضی بین الزوج والمرأۃ فان لم یکن دخل بھا فلا مہر لھا ولا عدۃ وان کان قد دخل بھا فلھا الأقل مما سمی لھا ومن مہر مثلھا۔
بے نامی
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر اپنے فرزند زید کے نام پر زمین خریدی اور پٹہ بھی اسی کے نام کرایا لڑکا بالغ ہونے کے بعد بھی اس کو اراضی کا قبضہ نہیں دیا۔ تاریخ خریدی اراضی سے آج تک بکر اس پر قابض و متصرف ہیں۔
اب جبکہ بکر اپنی ضرورت پر اراضی فروخت کرنا چاہتے ہیں تو زید کو اعتراض ہے۔
ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں بکر نے اپنے لڑکے زید کے نام پر جو اراضی خریدی اس پر فرزند کا قبضہ نہیں کرایا بلکہ جائیداد صرف لڑکے کے نام خریدی گئی ہے تو وہ اراضی بکر کی ہے وہ اس میں جس طرح چاہے تصرف کرسکتے ہیں کیونکہ محض کسی کے نام سے جائیداد خریدنے سے وہ اسکی ملک نہیں ہوجاتی۔ درمختار بر حاشیہ ردالمحتار جلد ۴ ص ۵۰۹ میں ہے (وتصح بالایجاب ک … جعلتہ لک) فان اللام للتملیک بخلاف جعلتہ باسمک فانہ لیس بھبۃ۔ فقط واللّٰہ اعلم