نیت جو ہو اچھی تو تجویز کے کیا کہنے
نیت میں ہو خطرہ تو تجویز سے کیا ہوگا
ایک قوم ۔ ایک الیکشن کی تجویز
بی جے پی اپنی دوسری معیاد میں حکومت بنانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اپنے بنیادی ایجنڈہ پر تیزی کے ساتھ عمل آوری کرنا چاہتی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ بی جے پی اگر دوبارہ برسر اقتدار آتی ہے تو 2024 میں لوک سبھا انتخابات نہیں کروائے جائیں گے ۔ بی جے پی انتخابی عمل کی اہمیت کو گھٹانا چاہتی ہے اور وہ کسی بھی طرح اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کریگی ۔ اس طرح کے الزامات کی حالانکہ بی جے پی کی جانب سے بارہا نفی کی گئی ہے اور جمہوریت کیلئے بڑے بڑے درس بھی دئے گئے ہیں لیکن اب وزیر اعظم نریندرمودی نے ایک اجلاس 19 جون کو تمام سیاسی جماعتوں کا طلب کیا ہے جس میں وہ بی جے پی کی تجویز ’ ایک قوم ۔ ایک الیکشن ‘ پر غو رکرنا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نریندر مودی کی شخصی مقبولیت کے سہارے طویل وقت تک اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ چاہتی ہے کہ ریاستوں میں بھی ووٹ مرکزی حکومت کیلئے ووٹ کے وقت ہی ڈالے جائیں تاکہ ان ریاستوںمیں بھی بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوسکے اور بی جے پی اپنے جو منصوبے ہیں ان پر قانون سازی کرتے ہوئے عمل آوری کی سمت پیشرفت کرسکے ۔ اسی خیال سے ایک ملک اور ایک الیکشن کی تجویز پیش کی جا رہی ہے ۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی ایک سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے ہندوستان کی جمہوریت میں ایک طرح کی خوبصورتی بھی ہے کہ ایک ہی ووٹر ریاستی الیکشن کیلئے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیتا ہے تو مرکزی اقتدار کیلئے کسی اور پارٹی کی تائید میں ووٹ کا استعمال کرتا ہے ۔ یہ ریاستوں اور مرکز کو درپیش ہونے والے مختلف حالات کی وجہ سے ہوتا ہے اور جب ایک ہی مرتبہ دونوں کیلئے ووٹ ڈالنے کیلئے رائے دہندوں کو مجبور کیا جائیگا تو ایسے میں عوام اپنی حقیقی رائے کے اظہار میں چوک کرسکتے ہیں اور اسی سے بی جے پی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ جس وقت ابتداء میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کئی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی تھی اور ایک بار پھر بی جے پی اس پر رائے ہموار کرنے کی کوشش کر نا چاہتی ہے ۔
ہندوستان میں ہر چند مہینوں میں کسی نہ کسی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں۔ شہروں کے مئیر منتخب ہوتے ہیں۔ کونسل اور ضلع پریشد کے انتخاب ہوتے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات ہر پانچ سال میں ایک بار ہوتے ہیں۔ ایسے میںجمہوریت کا ایک مسلسل عمل ہے جو ہندوستان میں کسی نہ کسی وقت اور کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی اسمبلیوں کی معیاد الگ الگ ہوتی ہے ۔ ان تمام ریاستوں کو ایک ہی ضابطہ کے تحت لانا بھی آسان نہیں ہوگا ۔ کسی ریاست میں مقامی حالات کی وجہ سے اسمبلی قبل از وقت تحلیل کردی جاتی ہے ۔ ایسے میں کیا اس ریاست کو پانچ سال پورے ہونے تک کیلئے انتظار میںرکھنا درست ہوسکتا ہے ؟ ۔ کہیں ارکان کا انحراف ہوتا ہے ‘ کہیں صورتحال کی وجہ سے مرکزی حکومت وہاں صدر راج نافذ کردیتی ہے جس کی مثال جموں و کشمیر کی ہمارے سامنے موجود ہے ۔ ایسے میں کیا پورے پانچ سال تک ریاست کے عوام کو ایک منتخبہ حکومت سے محروم رکھا جاسکتا ہے ؟ ۔ اگر ایسا رکھا بھی جائے تو کیا عوام کے جمہوری حقوق تلف نہیںہونگے ؟ ۔ جس طرح قومی سطح کے حالات اور ریاستی سطح کے حالات اور مسائل مختلف ہوتے ہیں اسی طرح ایک ریاست کے حالات دوسری ریاست کے حالات سے مختلف ہوتے ہیں۔ سبھی کو بیک وقت ووٹ ڈالنے کیلئے کہنا کسی بھی حال میں درست نہیں ہوسکتا اور اس کے پیچھے جو عزائم اور مقاصد ہیں وہ بھی ٹھیک نظر نہیں آتے ۔
حالانکہ حکومت اور بی جے پی بارہا انتخابات کے اخراجات ‘ انتخابی ضابطہ اخلاق کی وجہ سے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ وغیرہ کے عذر پیش کر رہی ہے لیکن ان سے نمٹنے کیلئے دوسرے طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں۔مقامی سطح پر انتظامی رکاوٹوں کی وجہ سے سارے ملک کے عوام کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی گنجائش نہیں نکالی جاسکتی ۔ جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلی کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے ہاتھ میں حکومتوں کو بنانے اور انہیں بیدخل کرنے کا جو اختیار ہے اسے ختم نہ کیا جاسکے ۔ جو تجویز اب سیاسی جماعتوں کے سامنے پیش کی جا رہی ہے اسے قبول کرنے سے تمام ہی جماعتوں کو گریز کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اس کے پس پردہ پوشیدہ عزائم و مقاصد بھی ہوسکتے ہیں۔