رہنمایانہ خطوط کی اجرائی پر بھی زور ، درخواست گزار کی سماعت کیلئے بھی عدالت تیار
آر ٹی سی کو خانگیانے کا مسئلہ
حیدرآباد۔19 نومبر(سیاست نیوز) ٹرانسپورٹ شعبہ کو خانگیانے کے فیصلہ پر تلنگانہ ہائی کورٹ نے مقدمہ کی سماعت کے دوران کہا کہ جب تک یہ نہیں پتہ چلتا کہ آرٹی سی کی روٹس کو کس طرح سے خانگیانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اس وقت تک اسے کس طرح سے غیر قانونی قرار دیا جاسکتا ہے!ہائی کورٹ میں جاری آرٹی سی کو خانگیانے کے فیصلہ کے معاملہ میں سماعت کے دوران عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ آرٹی سی کے روٹس کو خانگیانے کے فیصلہ کے متعلق مقامی اخبارات میں اعلامیہ جاری کرتے ہوئے 30 یوم تک اعتراضات حاصل کرنے کے اقدامات کریں اور اس کے بعد ہی اس سلسلہ میں کوئی قطعی فیصلہ کیا جائے۔ تلنگاہ ہائی کورٹ نے کہا کہ ریاستی کابینہ نے کن بنیادوں پر آر ٹی سی کو خانگیانے کا فیصلہ کیا ہے اور کس قانون کے تحت یہ گنجائش موجود ہے اس کو جانے بغیر کس طرح سے اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا جاسکتا ہے۔ درخواست گذار کے وکیل نے عدالت سے خواہش کی کہ وہ خانگیانے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ریاستی حکومت کے منصوبہ کو مسترد کرے جس پر عدالت نے کہا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے اس سلسلہ میں جب تک رہنمایانہ خطوط کی اجرائی عمل میں نہیں لائی جاتی
اس وقت تک یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام غلط ہے۔تلنگانہ ہائی کورٹ نے مقدمہ کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آرٹی سی کو خانگیانے کے اقدامات نہ کئے جائیں ایسا کوئی قانون نہیں ہے اور حکومت کی جانب سے چلائے جانے والے اداروں کی نگرانی اور ان کے متعلق فیصلوں کا اختیار حکومت کو حاصل ہے لیکن اس کے باوجو عدالت اس بات کا جائزہ لینا چاہتی ہے کہ ریاستی کابینہ کی جانب سے آرٹی سی کو خانگیانے کا فیصلہ کس قانون کے تحت کیا گیا ہے ۔ درخواست گذار کے وکیل نے چیف منسٹر کی جانب سے سابق میں کئے گئے اعلانات کا تذکرہ کیا جس پر عدالت نے واضح کردیا کہ وہ یہاں چیف منسٹر کے اعلانات یا بیانات کا جائزہ لینے کے لئے نہیں ہیں اور عدالت کی اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ چیف منسٹر نے کیا کہا تھا عدالت قانونی امور پر اس معاملہ کا جائزہ لے گی اور اگر درخواست گذار کے وکیل کوئی ایسا قانون پیش کرسکتے ہیں کہ آرٹی سی یا ٹرانسپورٹ شعبہ کو خانگیانے کے اقدامات نہیں کئے جاسکتے تو اس کی سماعت کیلئے تیار ہیں لیکن ان کی جانب سے اب تک بھی صرف حکومت کے فیصلہ پر اعتراض کیا جارہا ہے۔