ایک ملک ایک الیکشن کی تجویز

   

Ferty9 Clinic

حوصلے کیا کیا بڑھائے جورِ بیجا تھے مگر
سعیٔ ترک آرزو کو رائیگاں ہونا ہی تھا
ایک ملک ایک الیکشن کی تجویز
گذشتہ چند برس قبل ہندوستان میں ایک ملک ایک الیکشن کی تجویز پیش کی گئی تھی جس پر سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی رائے ظاہر کی تھی ۔ کئی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی تھی اور بی جے پی نے اس کی تائید کی تھی۔ کچھ وقت موضوع بحث رہنے کے بعد یہ تجویز دب سی گئی تھی تاہم آج وزیر اعظم نریندرمودی نے ایک بار پھر یہ تجویز پیش کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ملک میں ایک ہی مرتبہ انتخابات ہونے چاہئیں۔ ان کا مطلب یہی تھا کہ ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کیلئے بیک وقت انتخابات ہونے چاہئیں اور یہ انتخابات الگ الگ اپنے اپنے وقتوں پر نہیں ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم کی یہ تجویز ایک طرح سے بی جے پی کی جانب سے ملک کی تمام ریاستوں پر قبضہ جمانے کی کوشش کے مترادف ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ جس طرح اسے مرکز میں اقتدار حاصل ہو رہا ہے اسی طرح ریاستوں میں بھی اقتدار حاصل ہوتا جائے ۔ راجیہ سبھا میں اس کو خاطر خواہ اکثریت حاصل ہوجائے اور وہ اپنے من مانی فیصلے کرتے ہوئے ملک کے آئین و دستور میں تبدیلیاں اپنی مرضی سے لاسکے ۔ ہندوستان ایک وسیع تر جمہوریت ہے ۔ ملک کے دستور میں جمہوریت کو مقدم رکھا گیا ہے۔ ملک کے عوام کی رائے کو اہمیت دی گئی ہے۔ ہندوستانی جمہوریت دنیا کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت کہلاتی ہے اور اس کی انفرادیت اور خوبصورتی یہی ہے کہ مرکز میں جہاںکوئی جماعت اقتدار میں ہوتی ہے وہیں ریاستوں میں کوئی دوسری ہی جماعت کو عوام اقتدار سونپتے ہیں۔ قومی سطح کے مسائل مختلف ہوتے ہیں اور ریاستوں کے جو مسائل ہوتے ہیں ان کی نوعیت کچھ الگ ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر عوام مرکزی و ریاستی حکومتوں کے تعلق سے اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ انہیں اقتدار حوالے کیا جاتا ہے اور پانچ سال تک حکمرانی کا موقع دیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اس جمہوری عمل کو بھی بدلنا چاہتی ہے۔ وہ ایک طرح سے الگ الگ مسائل پر الگ الگ نمائندوں کو منتخب کرنے عوام کے حق کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔ یہ عمل دستور ہند کے مغائر ہے اور بی جے پی اور اس کے قائدین اسی کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح سے عوام نے مرکز میں ایک جماعت کو اقتدارسونپا ہے تو ریاستوں میں دوسری جماعتوں کو انہوں نے ترجیح دی ہے ۔ ریاستی سطح پر جو مسائل ہوتے ہیں وہ الگ ہوتے ہیں اور قومی سطح کے مسائل بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اسی کی بنیاد پر غور و فکر کے بعد عوام اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی مواقع پر ہندوستان میں دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ریاستی حکومت اپنی معیاد پوری کرنے سے قبل ہی زوال کا شکار ہوجاتی ہے ۔ برسر اقتدار جماعت ہی کے ارکان اسمبلی اپنے ہی لیڈر کے خلاف علم بغاوت بلند کردیتے ہیں۔ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور حکومتیں زوال کاشکار ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں ریاستوں میں وسط مدتی انتخابات ضروری ہوجاتے ہیں۔ بی جے پی یا اس کے قائدین کے پاس اس صورتحال کا کوئی حل موجود نہیں ہے ۔ صرف گورنر راج یا صدر راج کے ذریعہ حکومت کے کام کاج کو آگے بڑھانا جمہوریت کیلئے اچھا نہیں ہوسکتا ۔ اس کیلئے عوام کے ووٹ سے منتخبہ حکومت ہی ضروری ہوتی ہے ۔ ملک کے موجودہ جمہوری ڈھانچہ اور نظام میں ہر جماعت کو اپنی بات کہنے اور منوانے کا موقع حاصل ہے اور اگر ایک ملک اورا یک انتخاب کو حقیقت کا روپ دیدیا گیا تو کئی علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کا وجود عملاً ختم ہوکر رہ جائیگا اور جو بڑی جماعتیں ہیں ان کا وجود بھی خطرہ میں پڑ جائے گا ۔ یہ صورتحال ہندوستانی جمہوریت کو کھوکھلی کرنے والی ہوگی اور اس سے جمہوری اقدار کی یکسر نفی ہوگی ۔
مودی حکومت نے جس طرح اپنی پہلی معیاد میں کانگریس مکت بھارت کانعرہ دیا تھا ایسا لگتا ہے کہ وہ اپوزیشن مکت بھارت کی سمت پیشرفت کرنا چاہتی ہے ۔وہ تمام علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ختم کرتے ہوئے ملک کے ہر شعبہ اور ہر دستوری و قانونی ادارہ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے ۔ جمہوریت اور جمہوری ڈھانچہ کی دھجیاں اڑانا چاہتی ہے ۔ اپنے من مانی فیصلے ملک پر تھوپنا چاہتی ہے۔ ملک کے سکیولر کردار کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔ دستور میں ایسی تبدیلیاں لانی چاہتی ہے جو اس کے اپنے عزائم اور ایجنڈہ کی تکمیل میں معاون ہوں۔ یہ صورتحال ملک کیلئے اچھی نہیں ہوگی اور ہر صحیح الفکر طبقہ کو اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔