ایک ہوجائیں تو دنیا کو ہلا کر رکھ دیں

,

   

نریندر مودی … مساجد پر دوہرا معیار
ماب لنچنگ کا جنون … مسلمان دفاع کرنا سیکھ لیں

رشیدالدین
’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘ ملک کے حالات بہتری کے بجائے دن بہ دن ابتر ہورہے ہیں۔ دستور، قانون اور عدلیہ کا کوئی پاس و لحاظ باقی نہیں رہا۔ 75 سال سے جمہوریت پر قائم ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ظلم و ستم اور خونِ ناحق کا سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔ صبر اور ظلم سہنے کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے تو حالات پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ وزیراعظم نریندر مودی 10 برسوں سے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز ہیں لیکن وہ کچھ اس طرح اداکاری کرتے ہیں جیسے حالات سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ہندوستان کے باہر نکلتے ہی نریندر مودی کو اسلام کی خوبیاں اور اسلامی طرز تعمیر یاد آتے ہیں لیکن ملک میں قیام کے دوران ان کا رنگ مختلف ہوتا ہے۔ داخلی اور خارجی سطح پر مودی کے دو علحدہ چہرے ہیں۔ اسلامی اور عرب ممالک پہنچتے ہی نریندر مودی مساجد کا احترام کرنے لگتے ہیں جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخی عبادتگاہوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ چہرے پر دہری نقاب رکھنے والے نریندر مودی کو دنیا آج تک سمجھ نہیں پائی۔ مسلم ممالک جاتے ہی اسلام اور مسلمانوں سے ہمدردی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اور وطن واپسی پر زعفرانی بریگیڈ کا لباس پہن لیتے ہیں۔ مسلم ملک برونائی کے حالیہ دورہ کا آغاز مودی نے وہاں کی تاریخی مسجد عمر علی سیف الدین کے دورہ سے کیا۔ مسجد کی تعمیر اور اسلامی کلچر کی جھلک سے وہ کافی متاثر ہوئے۔ ہندوستان کے تمام گودی میڈیا نے مسجد کے دورہ کو مذہبی رواداری کے طور پر پیش کیا ۔ بیرونی دورہ کے موقع پر مودی کا مساجد کا دورہ پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ وہ سابق میں دبئی کی شیخ زید، عمان میں سلطان قابوس، انڈیشیا میں مسجد استقلال اور مصر کی الحکم مسجد کا دورہ کرچکے ہیں۔ مساجد کے اس قدر دوروں کے باوجود مودی کا دل نہیں بدلا جس کا مطلب صاف ہے کہ مساجد کے دورے اداکاری کے سوا کچھ نہیں۔ بیرونی مساجد سے محبت اور ملک کی مساجد سے نفرت کیوں ؟ مودی کے قریبی مانے جانے والے مشہور صنعت کار ظفر سریش والا نے برونائی میں مسجد کے دورہ کو وزیراعظم کی جانب سے فرقہ پرست طاقتوں کے منہ پر طمانچہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی نے زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے نفرت کے سوداگروں کو جواب دیا ہے۔ ظفر سریش والا نے گفتگو کے دوران گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے 600 سالہ قدیم مسجد کی بحالی کے مودی کے کارنامہ کا ذکر کیا۔ نریندر مودی کو واقعی مساجد سے محبت ہے تو پھر ملک میں مساجد پر حملے کون کر رہا ہے اور سنگھ پریوار کی کارروائیوں پر مودی خاموش کیوں ہیں؟ الغرض نریندر مودی نے ہر شعبہ میں اپنی بھجن منڈلی تیار کر رکھی ہے جو اشارہ ملتے ہی گن گانا شروع کرتے ہیں۔ کہاں ہے مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین جو کبھی بی جے پی کا مسلم چہرہ تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کو درست قرار دینے والے یہ دونوں آج گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مودی نے ان دونوں کا جو حشر کیا، وہ مودی کے دیگر تائیدی افراد کے لئے درس عبرت ہے۔ جن مسلم چہروں کے بغیر مرکزی کابینہ کا تصور ادھورا تھا ، آج وہی چہرے زندہ لاش بنے ہوئے ہیں اور مسلم وزیر کے بغیر ہی مرکزی حکومت چل رہی ہے۔ نریندر مودی نے صاف کردیا کہ انہیں اب مسلمانوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں مسلمانوں کی جانب سے انڈیا الائنس کی تائید کے بعد سے زبانی ہمدردی بھی ختم ہوچکی ہے۔ ہندوستان میں جب مسلمانوں کی ضرورت نہیں تو پھر مسلم ممالک کے پاس کاسہ گدائی کو کر کیوں پہنچ جاتے ہیں۔ برونائی کی مسجد عمر علی سیف الدین کے معائنہ کے وقت مودی کو بابری مسجد کا خیال ضرور آیا ہوگا جس کی جگہ رام مندر تعمیر کی گئی۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ مسجد کی اراضی حاصل کرنے پر مسلمانوں نے مزاحمت کے بجائے بے حسی کا جو مظاہرہ کیا ، اس کے نتیجہ میں آج کاشی اور متھرا کی تاریخی مساجدکو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ سنگھ پریوار کے ایجنڈہ میں ہندوستان کی 3000 سے زائد مساجد ہیں جن کو مندر میں تبدیل کرنے کی سازش ہے۔ نریندر مودی نے برونائی کی مسجد کا دورہ کیا لیکن مہاراشٹرا کے بی جے پی رکن اسمبلی نتیش رانے نے مساجد میں گھس کر چن چن کر مارنے کی دھمکی دی۔ وزیراعظم بیرونی ممالک میں مساجد کا احترام کر رہے ہیں لیکن نتیش رانے کے بیان پر خاموش ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نہ سہی بی جے پی نے رکن اسمبلی کے لئے کارروائی کیوں نہیں کی۔ مودی کی خاموشی کہیں نیم رضامندی تو نہیں ؟ ویسے بھی لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے مسلمانوں کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا تھا۔ جب مودی خود مسلمانوں کے خلاف زہر اگل سکتے ہیں تو پھر نتیش رانے سے کیا شکایت۔
ماب لنچنگ کے واقعات میں اضافہ جارحانہ فرقہ پرست عناصر کو کھلی چھوٹ کا ثبوت ہے۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں وقفہ وقفہ سے بیف کے نام پر گاؤ رکھشک مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ہریانہ میں مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو ہجوم نے ہلاک کردیا۔ الزام بس یہی تھا کہ نوجوان بیف منتقل کر رہا تھا۔ کسی ثبوت کے بغیر صرف شبہات کی بنیاد پر گاؤ رکھشک مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ہریانہ میں گاؤ رکھشکوں کو کھلی چھوٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماب لنچنگ کے جنون نے اکثریتی طبقہ کے ایک نوجوان کی جان لے لی۔ گاؤ رکھشکوں نے ایک ہندو نوجوان کا مسلمان سمجھ کر تعاقب کیا اور اسے گولی ماردی۔ ہلاکت کے بعد پتہ چلا کہ مہلوک دراصل 12 ویں جماعت کا طالب علم ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں ، ایسے میں ہندوتوا ایجنڈہ نافذ کرتے ہوئے مسلم رائے دہندوں کو دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مہاراشٹرا میں چلتی ٹرین میں 75 سالہ بزرگ اشرف علی سید حسین کو ٹفن میں بیف رکھنے کے الزام میں نشانہ بنایا گیا۔ بزرگ شخص کی عمر کی پرواہ کئے بغیر اذیت دیتے ہوئے ویڈیو تیار کیا گیا جو سوشیل میڈیا میں وائرل ہوچکا ہے۔ مسلم دشمنی کے جنون نے حملہ آوروں کے پاس عمر کا کوئی لحاظ بھی باقی نہیں رکھا۔ سنگھ پریوار ماب لنچنگ اور حملوں کے واقعات کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنا چاہتا ہے۔ اتراکھنڈ میں یکساں سیول کوڈ اور آسام میں مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر ڈیٹینشن سنٹرس کو منتقل کرنا تشویش کا باعث ہے۔ آسام میں 28 مسلمانوں کو فارنر ٹریبونل نے غیر ملکی قرار دیا جس کے بعد انہیں حراستی مرکز منتقل کردیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد کو غیر ملکی قرار دیا جارہا ہے ، ان کے آباء و اجداد ہندوستان کے شہری رہ چکے ہیں اور کئی بزرگ ابھی بھی بقید حیات ہیں لیکن این آر سی کے غلط استعمال کے ذریعہ آسام میں مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کی سازش انتہا پر ہے۔ مرکزی حکومت ملک میں این آر سی اور این پی آر پر عمل آوری کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ آسام اور اترا کھنڈ سنگھ پریوار کے تجربہ گاہ ہیں اور دیگر ریاستوں میں عمل آوری سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مودی حکومت کا دوہرا معیار اس وقت بے نقاب ہوگیا جب شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندو خاندانوں کو ہندوستان کی شہریت دی جارہی ہے لیکن آسام میں ہندوستانی شہریوں کو غیر ملکی قرار دیتے ہوئے شہریت ختم کرنے کی کارروائی جاری ہے۔ دراصل ہندوستان کو ہندو اکثریتی ریاست ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا آر ایس ایس کا بنیادی ایجنڈہ ہے۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف جو کچھ بھی سازش اور حملوں کے واقعات پیش آرہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی بے حسی ہے۔ اگر مسلمان ظلم سہنے کے بجائے اپنا دفاع کرنے کی ہمت پیدا کریں تو ماب لنچنگ کے واقعات خود بخود ختم ہوجائیں گے ۔ آخر ظلم سہنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا مسلمان ہندوستان میں دوسرے درجہ کے شہری اور دیگر اقوام کے رحم و کرم پر ہیں؟ ملک کی آزادی میں مسلمانوں نے اپنی جان کی قربانی دی اور آج ملک کی ترقی میں مسلمانوں کی حصہ داری سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ملک پر جب مسلمانوں کا مساوی حق ہے تو پھر بزدلی اور کمزوری کی وجوہات کیا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اور بزدلی کبھی ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔ دستور ہند میں ہر شخص کو اپنے دفاع کا حق دیا ہے ۔ دستوری حق کے استعمال میں کیا رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ کیا مسلمان اس حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں کہ ایک معمولی جانور بھی حملہ کی صورت میں اپنا دفاع کرتا ہے۔ کیا ہم شہد کی مکھیوں سے بھی گئے گزرے ہیں جو ان کے مکان کو چھونے والے پر حملہ کرتے ہیں۔ ہندوستان میں دفاع کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں پر مظالم کو روکا جاسکتا ہے۔ مسلم قیادتوں کو اس بارے میں غور کرنا ہوگا۔ جوہر کانپوری نے مسلمانوں کے حالات پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
خشک تنکوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں ہم لوگ
ایک ہوجائیں تو دنیا کو ہلا کر رکھ دیں