اے اہلِ سیاست یہ قدم رک نہیں سکتے

,

   

میڈیا پر کنٹرول کیلئے رویش کمار نشانہ
راہول گاندھی … محنت رنگ لائے گی

رشیدالدین
ہر مخالف آواز کو دبانا شاہی حکمرانی کا لازمی جز ہوتاہے کیونکہ بادشاہ کو اپنی رعایا سے بغاوت کا خطرہ رہتا ہے۔ یہ ایسے حکمراں کرتے ہیں جو رعایا پرور نہیں بلکہ آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کے ذریعہ حکمرانی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ رعایا پرور اور عوام سے ہمدردی رکھنے والے بادشاہوں نے شکایات کو سننے کا خاص اہتمام کیا تھا۔ ہندوستان میں جمہوریت یا تانا شاہی، اس کا فیصلہ کرنے کا وقت آچکا ہے۔ انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے 75 سال مکمل ہوگئے لیکن آج بھی انگریزوں کے باقیات اور ان کے وارث سر اٹھا رہے ہیں۔ جدوجہد آزادی میں انگریزوں کی مدد ، مجاہدین آزادی کی جاسوسی اور جیل سے رہائی کیلئے معافی نامہ لکھنے والوں کے نام لیوا آج اپنے آقاؤں کے راستہ پر چل پڑے ہیں۔ ہندوستان سیکولر اور جمہوری خود مختار مملکت ہے ، اس کا اعلان دستور کے پہلے صفحہ پر کیا گیا ہے لیکن گزشتہ 8 برسوں سے مرکز میں برسر اقتدار زعفرانی بریگیڈ جمہوریت اور سیکولرازم کی جگہ آمریت اور ہندوتوا شامل کرنے کے در پہ ہیں۔ ہر مخالف آواز بلکہ حکومت سے سوال کرنے والی آوازوں کو ختم کرنے کی مہم جاری ہے۔ جمہوریت ، آئین اور قانون کا کوئی پاس و لحاظ باقی نہیں رہا ۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کا بس ایک ہی مشن ہے کہ کسی طرح اقتدار کو باقی رکھا جائے بھلے ہی دستوری اور جمہوری اداروں کے حقوق پامال کیوں نہ ہو۔ عدلیہ ، عاملہ اور مقننہ کو جمہوریت کے ستون کہا جاتا ہے اور گزشتہ 8 برسوں میں ان ستونوں کو زعفرانی رنگنے میں کامیابی ہوئی ہے ۔ عدلیہ اور عاملہ میں حق پرست آوازوں کو کچلنے کیلئے طرح طرح سے ہراساں کیا گیا۔ جمہوریت کے چوتھے ستون کے طور پر صحافت (میڈیا) کو درجہ حاصل ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب جمہوریت کے اقدار کی پاسداری کی جائے۔ جمہوریت کا دستور ہی جب ختم ہوجائے تو پھر چوتھے ستون کے وجود کو خطرہ یقینی ہے۔ نریندر مودی حکومت نے ابتداء ہی سے میڈیا پر کنٹرول شروع کردیا کیونکہ عوام کو بیدار کرنے میں میڈیا کا اہم رول ہوتا ہے ۔ ملک کی 75 سالہ تاریخ میں کسی بھی حکومت نے میڈیا کی زبان بندی نہیں کی۔ حتیٰ کہ ایمرجنسی کے دوران بے باک میڈیا گھرانوں نے اندرا گاندھی کے خلاف مزاحمت کی لیکن آج کے حالات ایمرجنسی سے بدتر ہوچکے ہیں۔ پرنٹ میڈیا سے زیادہ الیکٹرانک میڈیا کو عوام تک رسائی مل چکی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ کچھ بھی زہر پھیلایا جاسکتا ہے۔ مودی حکومت نے اپنی ناکامیوں کو کارناموں کے طور پر پیش کرنے کیلئے پہلے پرنٹ اور پھر الیکٹرانک میڈیا کو خریدنے کا کام کیا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چیانلس سے حکومت سے سوال کرنے اور عوام کی ترجمانی کرنے والے صحافیوں کی چھٹی کردی گئی اور ان میڈیا گھرانوں کو گودی میڈیا میں تبدیل کردیا گیا ۔ میڈیا گھرانوں پر اس قدر مہربانیاں اور احسانات کئے گئے کہ ہر کسی نے مودی اور ان کی حکومت کی تعریف کو اپنا منتر بنالیا ۔ حکومت کے غلط فیصلوں کو عوام میں کچھ ایسی رنگ رلیوں کے ساتھ پیش کیا گیا جیسے مودی حکومت سے بڑھ کر عوام کا کوئی ہمدرد نہیں۔ ملک کے تمام بڑے اخبارات اور ٹی وی چیانلس جب مودی کا گن گانے لگیں تب ایک چیانل بدستور عوام کے ساتھ کھڑا رہا اور حکومت کی ہراسانی پر مزاحمت کرتا رہا ۔ مودی پرچار کیلئے نئے ہندی اور انگریزی نیوز چیانلس شروع کئے گئے پھر وہ عوام کا بھروسہ اور دل جیت نہیں سکے۔ بعض بیباک صحافیوں جیسے ونود دووا ، ابھیسار شرما ، پورن پرسن واجپائی کو اس قدر ہراساں کیا گیا کہ انہیں اپنے چیانلس چھوڑنا پڑا۔ ایک صحافی کو محض اس لئے خدا حافظ کہہ دیا گیا کیونکہ اس نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر مودی کو ان کی ذمہ داری یاد دلائی تھی۔ الیکٹرانک میڈیا میں گودی چیانلس اور چاٹوکار اینکرس کی بھرمار کے باوجود مودی اور بی جے پی کو این ڈی ٹی وی سے خوف تھا کیونکہ اس چیانل نے ہمیشہ سچ کو سچ کے طور پر دکھایا اور مودی کے اصلی چہرہ سے عوام کو روبرو کیا۔ نریندر مودی کو NDTV چیانل اور اس کے صحافی 2002 گجرات فسادات سے ہی کھٹک رہے تھے کیونکہ چیانل نے مسلمانوں پر مظالم کی داستاں دنیا کے سامنے پیش کی ۔ این ڈی ٹی وی کے پروموٹرس کو انکم ٹیکس دھاوؤں کے ذریعہ ہراساں کیا گیا لیکن جب بات نہیں بنی تو مودی نے اپنے دوست اڈانی کے ذریعہ چیانل پر کنٹرول کا تہیہ کرلیا۔ پرونوئے رائے اور روش کمار کی عوامی مقبولیت کا راز یہی ہے کہ وہ عام آدمی کی آواز بن کر رہے ۔ سماج کے جن طبقات اور گروپس کو نظر انداز کردیا گیا، ان کے مسائل این ڈی ٹی وی نے اجاگر کئے ۔ رویش کمار کے پرائم ٹائم کے لئے روزانہ رات 9 بجے لاکھوں لوگ انتظار کرتے اور خود مخالفین کو بے صبری سے اس پروگرام کا انتظار ہوتا۔ رویش کمار سماج کے ان طبقات کی آواز بن چکے تھے جو آواز اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ملک اور بیرون ملک آزادانہ اداروں سے سب سے زیادہ ایوارڈ حاصل کرنے والے رویش کمار کو حق بیانی اور مظلوموں کی ترجمانی سے روکنے طرح طرح کی دھمکیاں دی گئیں۔ جب کوئی کارروائی اور دھمکی کارگر ثابت نہ ہوئی تو اڈانی نے چیانل کا کنٹرول حاصل کرلیا جس کے بعد توقع کے مطابق پرونوئے رائے اور رویش کمار کو چیانل سے استعفیٰ دینا پڑ ا۔ ان کا استعفیٰ عام آدمی اور ہر بے آواز شخص کیلئے کسی سانحہ سے کم نہیں تھا جبکہ حکومت کے ایوانوں میں جشن منایا گیا۔ رویش کمار کے استعفیٰ سے ملک میں غیر جانبدار ، آزاد اور بے باک صحافت کا آخری ستون زمین بوس ہوگیا۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ میڈیا کو زعفرانے کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ اب نام تو NDTV برقرار رہے گا لیکن رویش اور پرونوئے رائے کی جگہ چاٹوکار اینکرس دکھائی دیں گے ۔ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی اور اڈانی جیسے صنعت کار بھی رویش کمار اور پرونوئے رائے کو خرید نہ سکے ۔ ایسے وقت جبکہ میڈیا میں ’’فار سیل‘‘ صحافیوں کی کمی نہیں ہے ۔ ان دونوں نے یہ ثابت کردیا کہ اصول سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ مودی اور ان کے دوست اڈانی بظاہر جیت گئے لیکن حقیقت میں یہ ان کی ہار ہے۔ رویش کمار بھلے ہی ایک شخصیت ہے لیکن نئی نسل سے کئی رویش کمار تیار ہوں گے جو مودی اور پریوار کا مقابلہ کریں گے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گودی میڈیا دن رات اس شخصیت کے بھجن گا رہا ہے جنہوں نے آج تک میڈیا کا سامنا نہیں کیا۔ 8 برسوں میں مودی نے ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حق کی آواز کو کچلنے کی کوشش کی گئی انقلابات نے جنم لیا۔ ملک کو بس وقت کا انتظار ہے۔
گجرات اسمبلی چناؤ کے پہلے مرحلہ کی رائے دہی مکمل ہوگئی اور دوسرے مرحلہ کیلئے بھی نریندر مودی نے اپنی آبائی ریاست میں 50 کیلو میٹر طویل روڈ شو کا ریکارڈ قائم کیا جس کے تحت 16 اسمبلی حلقہ جات کا احاطہ کیا گیا ۔ عمر کے اس حصہ میں نریندر مودی کی محنت سے اندازہ ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار اقتدار کی برقراری میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔ گجرات چناؤ کو ہندوتوا ایجنڈہ کے تحت فرقہ وارانہ رنگ دینے میں مودی اور امیت شاہ نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ گجرات جو ملک میں ہندوتوا کی پہلی تجربہ گاہ ہے، وہاں 2002 فسادات کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو دھمکایا جارہا ہے تاکہ وہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی تائید نہ کریں ۔ مرکزی وزیر داخلہ کا یہ بیان گجرات فسادات میں ہم نے سبق سکھایا تھا ، انتہائی قابل اعتراض اور دستور پر حلف لینے والے مرکزی وزیر کے شایان شان نہیں ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ کسی طرح 27 سال کا اقتدار برقرار رہے تاکہ مودی اور امیت شاہ کے خلاف پارٹی میں کوئی بغاوت نہ ہو۔ دوسری طرف راہول گاندھی ہندوستان جوڑو یاترا کے ذریعہ عوام کے درمیان پہنچ رہے ہیں۔ سرکاری اور گودی میڈیا نے راہول گاندھی کا بلیک آؤٹ کردیا ہے ۔ اگر ٹی وی چیانلس کو دیکھا جائے تو پتہ نہیں چلے گا کہ راہول گاندھی کی یاترا چل رہی ہے ۔ بھلے ہی گودی میڈیا اور مودی نواز اخبارات راہول گاندھی کا بائیکاٹ کریں لیکن عوام کے جوش و خروش کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ راہول گاندھی کی محنت ضرور رنگ لائے گی۔ بظاہر یاترا کا کوئی اثر دکھائی نہ دے لیکن آئندہ عام انتخابات میں نتائج سے راہول گاندھی کی مقبولیت کا اندازہ ہوگا۔ بھارت جوڑو یاترا میں جہدکاروں اور فلمی شخصیتوں کی شرکت پر گودی میڈیا آگ بگولہ ہے ۔ اینکرس کو یہاں تک تبصرہ کرتے ہوئے سنا گیا کہ ملک کی ’’ٹکڑے ٹکڑے گیانگ‘‘ کا بھارت جوڑو سے کیا تعلق ؟ ملک کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون جوڑنا اور کون توڑنا چاہتا ہے۔ صحافتی آزادی پر مودی حکومت کے حملوں کا جواب منور رانا نے کچھ یوں دیا ہے ؎
اے اہلِ سیاست یہ قدم رک نہیں سکتے
رک سکتے ہیں فنکار قلم رک نہیں سکتے