بائیڈن انتظامیہ سے مودی حکومت کے خوشگوار تعلقات کی راہ ہموار

   

ششیر گپتا
وائیٹ ہاوز میں جلد ہی نیا صدر امریکہ مقیم ہوگا۔ ہندوستان کے لئے اس کا کیا مطلب ہے؟ مودی حکومت منتخبہ صدر جوبائیڈن کے ساتھ اس وقت سے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے جبکہ وزیر خارجہ ہندوستان ایس جئے شنکر ہندوستانی سفیر برائے امریکہ اوباما انتظامیہ کے دوران رہ چکے ہیں اور اب موجودہ سفیر امریکہ ترن جیت سنگھ سندھو ان کے نائب سفیر تھے دونوں کے درمیان ربط اس وقت ختم ہوگیا جبکہ نومنتخبہ صدر بائیڈن امریکہ کے آئندہ صدر منتخب ہوگئے اور امریکہ نے ہندوستان کے بارے میں اتفاق رائے ظاہر کیا۔

جہاں تک وزیر اعظم نریندر مودی کا تعلق ہے وہ اپنی خارجہ پالیسی شخصی بنیادوں پر چلاتے ہیں اور ہندوستانی مفادات ان کی اولین ترجیح ہیں۔ وہ صرف اس وقت اپنی کوشش ترک کردیتے ہیں جبکہ ملک یا اس کا کوئی ادارہ باہمی تعلقات میں غیر ضروری اعادہ کو محسوس کرنے لگتا ہے۔
اس زمرہ میں پیش قیاسی کرنے والے ممالک کو کوئی نمبر نہیں ملتے۔
جبکہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی درحقیقت آئندہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب جھکاؤ رکھتی ہے اور بائیڈن کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات اس وقت سے ہیں جبکہ وہ کالج کے طالب علم تھے۔ ری پبلکن پارٹی کے ان کے حریف نائب صدر تھے اور برسوں بعد اوباما انتظامیہ کے دوران صدر بن گئے۔ یہ بحیثیت سیاستداں ان کے 40 سال کا دور تھا یا انہوں نے واشنگٹن میں اپنی زندگی کے آدھے سے زیادہ برس گذار دیئے اور یہ جانتے ہیں کہ کیپٹل ہل کے بارے میں کیا افواہیں گشت کررہی ہیں۔
صدر ٹرمپ کے برعکس جنہوں نے اپنی حکمت عملی جارحانہ انداز کی اختیار کر رکھی تھی آئندہ صدر کے بارے میں قیاس آرائیاں زیادہ بہتر طور پر کی جاسکتی ہیں۔ دنیا کے بارے میں ان کا کیا رویہ ہوگا اور ان سے چین کے ساتھ رویہ کی کیسی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ یوروپ کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہوگا اور کیا وہ روس کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کریں گے؟
حالانکہ چینی ماہرین صدر ٹرمپ کی شکست پر خوشی منا رہے ہیں۔ امریکی نظام اب مستحکم یقین رکھتا ہے کہ چین نہ صرف اس کا دشمن ہے بلکہ مستقبل میں امریکہ کے لئے ایک خطرہ بھی ثابت ہوگا۔
اس لئے کوئی بھی توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف دھماکہ خیز بیانات بائیڈن دور میں جاری کریں گے اور چین کے بارے میں امریکہ کی پالیسی مکمل ہو جائے گی۔ چنانچہ وہ ایشیا میں اپنے اہم ترین کردار کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔ اوباما انتظامیہ کے دوران جو تیقنات دیئے گئے تھے ان کی تکمیل کریں گے۔ جہاں تک ٹرمپ کا سوال ہے ممکن ہے کہ ان کی اہمیت اب کم ہو جائے اور امریکی سنیٹ کے لئے ان کی انتخابی مہم ریاست جارجیہ میں سیاسی طور پر ناکام ہوجائے اور ری پبلکن پارٹی سیاسی لحاظ سے کارآمد برقرار نہ رہے۔
چین کی پاکستان کے ساتھ سدا بہار دوستی بھی اطمینان کی سانس لے سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور کے خاتمہ کے بعد ہندوستان ممکن ہیکہ اس کا داخلی انتظامیہ دہشت گردی کے خلاف سخت موقف اختیار کرے۔ خاص طور پر حالیہ اسلامی حملوں کے بعد جو ترک وطن کرنے والوں نے کئے ہیں۔
نومنتخبہ صدر افغانستان کے بارے میں موجودہ یا ماضی کی پالیسی برقرار رکھیں گے لیکن امریکہ کے سراغ رسانی محکموں اور پنٹگان جس کے مشورہ ٹرمپ نے مسترد کردیا تھا یہ قیاس آرائی کررہے ہیں کہ طالبان کے تشدد میں جسے حقانی نیٹ ورک اور کوئیٹہ میں قائم شوریٰ کی تائید حاصل ہے، جو پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنانے میں ملوث ہے کامیاب ہوسکے گی۔
نومنتخبہ صدر توقع ہے کہ افغانستان کے اور اسلام آباد کے ماہرین کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اپنا فرض انجام دیں گے، اپنے افغانستان کے سابق دوستوں جیسے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو ثبوت فراہم کریں گے۔ پاکستان کا مسئلہ درحقیقت یہ ہے کہ وہ نومنتخبہ صدر بائیڈن کی مشکلات میں کئی گنا زیادہ اضافہ کرسکتا ہے اور اسلام آباد اپنے حلیف نئے ملک ترکی کے ساتھ اتفاق رائے کے سلسلہ میں کمزوری کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں اس کا جتنا ٹھوس مظاہرہ تھا اس میں آئندہ کمی ہوسکتی ہے۔

ایران کو یقین ہے کہ امریکی تحدیدات بائیڈن انتظامیہ کے دور میں برخواست کردی جائیں گی۔ انہوں نے یوروپ میں طے شدہ نیوکلیر معاہدہ پر ضرب لگانے کا اعلان کیا تھا جو تہران کے ساتھ طے پایا تھا لیکن یہ بھی درست ہے کہ نیا انتظامیہ ممکن ہے کہ تکثریت کی سمت پیشرفت کرے جو سمجھا جاتا ہے کہ موجودہ ٹرمپ انتظامیہ نے نفرت کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔
ماحولیاتی تبدیلی اور حفظان صحت کی پالیسی میں موجودہ عالم گیر وباء کی وجہ سے فرق پیدا ہوگا۔ جرمنی اپنے طور طریقہ میں تبدیلی کرے گا۔ روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات امکان ہے کہ مزید انحطاط پذیر ہوں گے۔
حکومت ہند جنوری 2021 کی منتظر ہے، جبکہ نئے انتظامیہ کے ساتھ اس کے تعلقات قائم ہوں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر ممالک وائیٹ ہاوز کے نئے مکین کے منتظر رہیں گے۔