بائیڈن دور، ایک نئے امریکہ کی تعمیر

   

ڈاکٹر اسلم عبداللہ
یہ قیاس نہیں کیا جاتا تھا کہ ایسا بہت جلد ہو جائے گا۔ 2 لاکھ 50 ہزار افراد کورونا وائرس وباء کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے۔ وباء کے علاوہ مسلمانوں پر تحدیدات، نسلی نفرت پر مبنی حملے اور معاشی حالات میں انحطاط اس کی وجہ ہوں گے۔ ٹرمپ صدارتی انتخابات میں شرمناک شکست سے دوچار ہوئے لیکن ٹرمپ نے ایک بار اپنی خطابت کا اور کرشماتی جادو کا مظاہرہ کیا تھا اور ان کے جلسوں کے نتیجہ میں ان کے لاکھوں مداح انتخابی مراکز پر پہنچے تھے۔ انہوں نے ان ریاستوں میں بھی کامیابی حاصل کی تھی جہاں پر سیاسی پنڈتوں نے ان کی ناکامی کی پیش قیاسی کی تھی۔ آخر کار مشیگن، وسکانسن، جارجیا اور نویڈا کے انتخابی نتائج نے ٹرمپ پر وائیٹ ہاوز کے دروازے بند کردیئے۔ کشیدگی پیدا ہوگئی جب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بائیڈن صدارت کے عہدہ پر فائز نہیں ہوں سکیں گے لیکن ملک نے ایسے اقدامات کرنے شروع کردیئے جن کے نتیجہ میں انہیں تقویت حاصل ہوئی اور وہ صدر کے عہدہ پر فائز ہو سکے۔ ایک کثیر نسلی خاندان کی فرد کملا ہیرس نے بھی کامیابی حاصل کرلی۔
ٹرمپ اور بائیڈن نے رائے دہندوں سے جس انداز میں ربط پیدا کیا وہ یکساں نوعیت کا تھا۔ دونوں نے اپنے ملک میں سفید فاموں یا سیاہ فاموں کے بڑھتے ہوئے غلبے کی شکایت نہیں کی۔ دونوں نے زیادہ سے زیادہ امریکیوں کو راغب کیا کہ پرچہ رائے دہی کے ذریعہ اپنی رائے ظاہر کریں۔ امریکہ میں 239.2 ملین رائے دہندے ہیں۔ 159.8 ملین یا 66.8 فیصد نے رائے دہی میں شرکت کی۔ 1900 ء کے بعد یہ سب سے اونچی شرح رائے دہی تھی۔ بائیڈن کو 74 ملین سے زیادہ رائے دہندوں کی تائید حاصل ہوئی۔ کسی بھی صدارتی امیدوار کو قبل ازیں اتنی تعداد میں رائے دہندوں کی تائید حاصل نہیں ہوئی تھی۔

انتخابات مذہب کے بارے میں نہیں تھے تاہم مذہبی طبقات نے کثیر تعداد میں رائے دہی میں حصہ لیا۔ پروٹسٹنٹس رائے دہنوں کا 26 فیصد تھے، کیتھولکس 22 فیصد دیگر عیسائی 18 فیصد، دیگر 8 فیصد یہودی، 3 فیصد تھے۔ مورمونس ایک فیصد مسلمان اور دیگر ہندو جملہ ایک فیصد تھے۔ مینی سوٹا اور مشیگن میں دو مسلم کانگریسی الہان عمر اور رشیدا طلائب نے ضلعوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھا اور بائیڈن کی کامیابی میں اہم حصہ ادا کیا۔ آندرے کارسن نے انڈیانا میں تیسرے مسلمان تھے جنہوں نے اپنے ضلع پر قبضہ برقرار رکھا۔ مشی گن میں انہوں نے ایک لاکھ 50 ہزار ووٹوں سے ٹرمپ کو شکست دی۔ کلنٹن اس ریاست میں 2016 میں 11 ہزار کے فرق سے ناکام رہے تھے۔ مینی سوٹا میں کامیابی کی سبقت بائیڈن کے لئے 2016 کی بہ نسبت زیادہ تھی۔
صدارتی انتخابات میں جو ریاستیں میدان جنگ بنی تھیں وہاں مسلمان ووٹ اہمیت رکھتے تھے۔ سنیٹ اور ایوان تک پہنچنے کی دوڑ میں ان کی اہمیت تھی۔ ان کی غالب اکثریت نے بائیڈن کی تائید میں ووٹ دیا۔ 110 مسلمان ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف عہدوں پر ہیں، ان میں سے 50 سے زیادہ نے کامیابی حاصل کرلی۔ زیادہ تر جیتنے والے لوگ کم عمر تھے اور دیگر نسلی طبقات کی نمائندگی کرتے تھے۔

بائیڈن کی فتح عوام کی فطح ہے۔ کسی بھی شخص کو امید ہوسکتی ہے کہ اندرون ملک اور بیرون ملک ڈکٹیٹروں کے سرپرست موجود ہیں جو اسرائیل، ہندوستان، سعودی عرب اور دنیا کے دیگر علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داری امریکیوں کی خدمت کرنا ہے اور اس کے بعد مملکت اسرائیل کے مجالس بلدیہ کا مقام ہے۔ملک کو توقع ہے کہ بائیڈن کووڈ ۔ 19، معیشت، تارکین وطن، ماحولیات اور نسلی مساوات کے بارے میں تیزرفتار کارروائی کریں گے۔ انہیں اقتدار حاصل ہے اور انہیں اس کا استعمال ملک کے اشرافیا طبقہ کی فلاح و بہبود کے لئے نہیں بلکہ تمام شہریوں کی فلاح و بہبود کے لئے کرنا چاہئے۔