بابری مسجد۔ رام جنم بھومی حق ملکیت مقدمہ۔ مسجد 5دسمبر 1992ء میں جیسی تھی ویسے ہی حالت میں سونپی جائے۔ مسلم فریقین کے وکیل کا استدعاء

,

   

نئی دہلی:بابری مسجد۔ رام جنم بھومی حق ملکیت مقدمہ کی سماعت کے دوران بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ صرف سوالات مسلم فریقین (جمعیۃ العلماء ہند اور مسلم پرسنل لاء بورڈ) سے ہی کئے جارہے ہیں ہندو فریقین سے کوئی سوال نہیں کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر راجیو دھو ن نے کہا کہ اگر عدالت آئین کی دفعہ 142کے تحت حاصل حصوصی اختیارات کا استعمال کر کے اس معاملہ میں کوئی فیصلہ صادر کرنا چاہتی ہے تو اسے اس بات کو مد نظر رکھنا ہوگاکہ 26اور 27 دسمبر 1949ء کی شب مسجد کے اندرونی حصہ میں مورتی رکھی گئی تھی اور اس کے بعد 1992دسمبر6کو غیر قانونی طریقہ سے مسجد بھی شہید کردی گئی تھی۔یعنی ہمیں 5دسمبر 1992ء میں جیسی مسجد کی حالت تھی اسی حالت میں مسجد چاہئے۔

اترپردیش کی سنی سنٹرل وقف بورڈ کے چیر مین ظفر فاروقی نے چیف جسٹس رنجن گوگوئی سے اپنی جان کے خدشات کیلئے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا اور حفاظتی دستہ کی خواہش ظاہر کی جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے اتردیش حکومت کو ہدایت دی کہ وہ فوری ظفر فاروقی کو سیکوریٹی فراہم کریں۔ بنچ نے جس میں جسٹس ایس اے بوبڈے‘ جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ‘ جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر شامل تھے یہ کہا کہ متنازعہ مقام پر آہنی ریلنگ کی تنصیب کے پیچھے نظریہ یہ تھا کہ اندرونی صحن کو بیرونی صحن سے جدا کیا جائے۔بعد ازاں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے آج کی بحث پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر راجیودھون نے بہت اچھی بحث کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان ایک سچے محب وطن بن کر عدالت کے فیصلہ کا بڑی صبر و تحمل سے انتظار کررہے ہیں۔