اُسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ
بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ پر سپریم کورٹ نے آج اپنا فیصلہ سنادیا ۔ عدالت نے ساری زمین رام مندر کیلئے سونپ دی ہے اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کیلئے اصل اراضی سے ہٹ کر پانچ ایکڑ اراضی فراہم کرنے کا فیصلہ دیا ہے ۔ فیصلے کی تفصیلات میں جانے سے قبل یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سات دہوں سے جاری تنازعہ کو عدالتی فیصلے کے ذریعہ منطقی انجام تک پہونچانے کی کوشش کی گئی ہے تاہم اس فیصلے کے خلاف اپیل کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے عدالتی فیصلے کے فوری بعد واضح کردیا کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام تو کرتے ہیں لیکن اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ فیصلے کی تفصیلات کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کے خلاف اپیل کے تعلق سے کوئی فیصلہ کیا جائیگا ۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے طویل اور دیرینہ مقدمہ میں فیصلہ سنادیا ہے لیکن اس فیصلے کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ عدالت نے یہ واضح کردیا کہ بابری مسجد کو 6 ڈسمبر 1992 کو شہید کیا جانا خلاف قانون عمل تھا ۔ تاہم عدالت نے اس خلاف قانون عمل کے مقدمہ کی جلد تکمیل یا اس کے ذمہ داروں کے خلاف کسی کارروائی کے تعلق سے ہدایت نہیں دی ہے ۔ عدالت نے یہ بھی مانا کہ نماز کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمانوں نے مسجد کو چھوڑ دیا تھا ۔ عدالت نے یہ ضرور تسلیم کیا کہ بابری مسجد کی تعمیر میر باقی کی جانب سے کی گئی تھی اور اس میں صرف دو فریقین کی درخواستوں کو ہی قابل قبول مانا گیا تھا ۔ ایک تو سنی وقف بورڈ کی درخواست اور دوسری رام لا لا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست تھی ۔ شیعہ وقف بورڈ اور نرموہی اکھاڑہ کی جو درخواستیں تھیں انہیں عدالت کی جانب سے مستردکردیا گیا ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کیا کہ مسلمانوں کی جانب سے مسجد پر دعوی تو کیا گیا ہے اور اس اراضی کی ملکیت کے تعلق سے بھی ادعا کیا گیا لیکن اپنے دعوی کی تائید میں کوئی ثبوت پیش کرنے میں مسلم فریق ناکام رہا ہے ۔ اس پہلو کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ تاریخی اعتبار سے میرباقی کی تعمیر کردہ مسجد اور اس سے متصل اراضی پر مسلم فریق کیوں اپنے دعوی کے حق میں ثبوت پیش نہیں کرسکے ۔
اس مقدمہ سے متعلق جو ساری زمین تھی وہ مندر کیلئے مرکزی حکومت کے سپرد کردی گئی ہے اور اس سے سیاسی مداخلتوں کو ختم کرنے کیلئے حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے کی بھی ہدایت دی گئی ہے ۔ مرکز کو ہدایت دی گئی ہے کہ مسلمانوں کو پانچ ایکڑ متبادل اراضی مسجد کیلئے فراہم کی جائے ۔ ایک طرح سے یہ ہدایت معاوضہ کے مترادف بھی ہے حالانکہ مسئلہ ایک اراضی کے بدلے دوسری اراضی سے متعلق نہیں تھا بلکہ حق ملکیت کا تھا ۔ حالانکہ عدالت نے یہ اعتراف کیا کہ محض عقیدہ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا اور شواہد کو پیش نظر رکھا جانا ہوتا ہے تو مسلم فریق کو اس میں اس کے اپنے جو ثبوت و شواہد تھے ان کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت بھی ہے ۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پانچ ایکڑ اراضی کے تعلق سے مسلمانوں کی عمومی رائے کیا ہوسکتی ہے کیونکہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے فیصلے پر نظرثانی اپیل کے امکان کو مسترد نہیں کیا گیا ہے ۔ حالانکہ جامع مسجد دہلی کے شاہی امام احمد بخاری اور دوسرے گوشوں کی جانب سے اس مسئلہ کو طوالت دینے سے گریز کرنے کی بات بھی کی جا رہی ہے ۔ خود بابری مسجد تنازعہ کے قدیم درخواست گذار اقبال انصاری نے بھی کہا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے اور وہ عدالت کے فیصلے کے خلاف مزید کوئی اپیل کرنے کے حامی نہیں ہیں۔ جہاں تک ہندو فریقین کا سوال ہے بحیثیت مجموعی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور اب مندر تعمیر سے متعلق بیانات بھی سامنے آنے لگے ہیں تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ فوری طور پر ایسے بیانات سے گریز کیا جانا چاہئے ۔
سپریم کورٹ چونکہ ملک کی عدالت عظمی ہے اور تقریبا تمام فریقین کی جانب سے یہ اعلان کیا جا رہا تھا کہ عدالت کے فیصلے کا احترام کیا جائیگا اور جو بھی فیصلہ عدالت سنائے گی اس کو قبول کیا جائیگا اور اس کا احترام کیا جائیگا ۔ یقینی طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کیا جانا چاہئے اور اس کو قبول بھی کیا جانا چاہئے تاہم جو قانونی نکات قابل غور ہیں ان کی بنیاد پر اگر واقعی کوئی گنجائش محسوس ہوتی ہے تو اس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔ اس میں بھی ایک پہلو کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے اقدام سے کسی کو بھی اپنے لئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع ہاتھ نہ آجائے ۔ پہلے ہی اس مسئلہ پر ہندوستان میں بہت سیاست ہوچکی ہے اور اس مسئلہ نے ہندوستانی سیاست کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ اس مسئلہ پر مزید کسی طرح کی سیاست کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
پاکستان میں مخالف حکومت مظاہرے
پاکستان کی سیاست میں جمہوریت کی بنیادیں ہنوز کمزور ہیں یا کمزور رکھنے کی سازشیں برقرار ہیں۔ جمہوری طور پر منتخب حکومت کو غیرمستحکم کرنے کیلئے سیاسی بہانے تلاش کرنے والی پارٹیوں نے حکمراں پارٹی کے خلاف احتجاجی مظاہرے، دھرنے اور تشدد برپا کرنے کی عادت کا ہمیشہ مظاہرہ کیا ہے۔ سابق میں نواز شریف حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے اب تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خاں کے خلاف مارچ نکال کر استعفیٰ کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پارٹی (پی ٹی آئی) حکومت ہنوز اسٹابلشمنٹ کیلئے عزیز ہے کیونکہ اصل اپوزیشن پارٹی ہنوز کمزور ہے۔ مسلم لیگ نواز یا پاکستان پیپلز پارٹی یا پھر مولانا فضل الرحمن کا گروپ اس وقت عمران خان کا تعاقب کررہے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے عوام کے حق میں ایک بہتر نظم و نسق فراہم کرنے کی شروعات تو کی ہے لیکن پاکستان کے وسائل اور مسائل میں اتنا بڑا فرق ہے کہ اس بحران سے باہر نکلنا مشکل ہے۔ ان مشکلات کے درمیان اگر اپوزیشن پارٹیاں بھی حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر پاکستان کو دھرنوں، جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کی نذر کرتی رہیں تو پھر پاکستان مزید کمزور ہوجائے گا۔ اگر مولانا فضل الرحمن کی دانش میں وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان کے استعفیٰ کے بعد پاکستان کے حالات بہتر ہوتے ہیں تو پھر انہیں یہ بھی وضاحت کرنی ہوگی کہ آخر وہ کس حکومت یا حکمراں سے مطمئن ہوں گے۔ سابق میں وہ نواز شریف حکومت کے خلاف احتجاجی مورچے نکالتے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت العلمائے اسلام (ایف) کوئی بڑی سیاسی طاقت نہیں رکھتی اس کے باوجود سیاسی طاقت کی حامل حکمراں پارٹی تحریک انصاف کی بنیادوں کو کمزور کرکے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے اور پاکستان کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں یہ غیرواضح ہے۔