راجیش پائلٹ کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ ہمیں پرنسپل سکریٹری سے ملنے کو کہا گیا ۔ سلمان خورشید کی کتاب میں انکشافات
نئی دہلی 11 جولائی ( سیاست ڈاٹ کام ) ایک نئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 6 ڈسمبر 1992 کو جب ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا اس وقت داخلی سکیوریٹی کے انچارچ راجیش پائلٹ اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راو سے ملاقات کیلئے گئے تھے تاکہ ایودھیا میں اس دن جمع ہونے والے ہجوم کو منتشر کرنے کے تعلق سے تبادلہ خیال کرسکیں لیکن ان کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے کیونکہ وزیر اعظم اس وقت سو رہے تھے ۔ نرسمہا راو کی کابینہ میں منسٹر آف اسٹیٹ رہنے والے سینئر کانگریس لیڈر سلمان خورشید نے اپنی ایک کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے ۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’ ظاہر مسلمان ‘ پوشیدہ شہری ۔ ہندوستانی جمہوریت کے پس منظر میں ‘‘ میں یہ انکشاف کیا ہے ۔ واضح رہے کہ 1992 میں بابری مسجد کو شہید کردئے جانے کے بعد ملک کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے ۔ انہوں نے تحریر کیا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے ایسا لگتا ہے کہ قانون کی بالادستی پر سوالیہ نشان پیدا ہوگیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 6 ڈسمبر کو انہوں ( سلمان خورشید ) نے راجیش پائلٹ سے ملاقات کی تھی اور ان سے خواہش کی تھی کہ بابری مسجد کے اطراف جمع ہونے والے ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے کچھ کیا جائے ۔ راجیش پائلٹ نے بھی اس سے اتفاق کیا تھا کہ انہیں فیض آباد کا دورہ کرنا چاہئے ۔ راجیش پائلٹ نے کہا تھا کہ اگر کچھ نوجوان وزرا وزیر اعظم پر اثر انداز ہوسکیں تو زیادہ اچھا ہے ۔ سلمان خورشید نے کہا کہ وہ فوری سی کے جعفر شریف کے پاس گئے اور ان سے وزیر اعظم سے ملاقات کو کہا ۔ انہوں نے ملاقات کی ۔ وزیر اعظم نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم پرنسپل سکریٹری اے این ورما یا پھر معتمد داخلہ سے بات کریں جو جلدی ہی اترپردیش پرواز کرنے والے تھے ۔ انہو ںنے بتایا کہ اے این ورما کو کچھ تحفظات تھے کہ شائد یو پی کا یہ دورہ ہو بھی سکے گا یا نہیں۔ ہم دوبارہ راجیش پائلٹ کے پاس گئے تاکہ جو کچھ ہوا ا س سے واقف کرواسکیں کیونکہ وقت گذرتا جا رہ اتھا ۔ ہم ایک بار پھر سی کے جعفر شریف کے گھر گئے ۔ جعفر شریف نے جب دوبارہ وزیر اعظم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ’’ وہ سو رہے تھے ‘‘ ۔ سلمان خورشید نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ اچھی بات یہ رہی کہ دوسرے دن تک نیم فوجی دستے بیشتر ہجوم کو وہاں سے منتشر کرچکے تھے کیونکہ یہ واضح ہوگیا تھا کہ وہاں مورتی کے اوپر چھت ڈالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کتاب میں تحریر کیا گیا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے قانون کی بالادستی یا پھر اس کی ادارہ جاتی صلاحیت پر ضرور سوال پیدا ہوگئے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دستوری ضرورتوں کی تکمیل کیلئے مختلف افراد نے مختلف انداز میں رد عمل کا اظہار کیا ۔ کچھ بے چین ہوگئے تھے اور کچھ مختلف انداز اختیار کئے ہوئے تھے ۔ تاہم کسی بھی طریقے سے جو مقصد حاصل کیا جانا تھا وہ نہیں کیا جاسکا ہے ۔ اس کتاب کو ’ روپا پبلیکیشن ‘ نے شائع کیا ہے اس میں غیر مسلموں پر اسلام کو واضح کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی مسلمانوں کی ہندوستانی جمہوریت کے پس منظر میں شناخت کو بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ سلمان خورشید کا کہنا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف اسلام بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے بھی ہے ۔ ایک طرح سے دونوں کا تقابل بھی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔