باغی ارکان اسمبلی ایوان میں حاضری کے پابند نہیں

   

اسپیکر استعفوں پر فیصلہ کریں، چیف جسٹس رنجن گوگوئی زیرقیادت سپریم کورٹ بنچ کی رولنگ
نئی دہلی، 17 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کو ایک اہم عبوری حکم میں واضح کیا کہ کرناٹک کے باغی ارکان اسمبلی کو تحریک اعتماد کے عمل میں حصہ لینے کے لئے پابند نہیں کیا جاجاسکتا ۔تاہم، عدالت عظمی نے دوسری طرف یہ بھی واضح کیا کہ اسمبلی اسپیکر کانگریس اور جنتا دل ( سکیولر) کے باغی اراکین اسمبلی کے استعفے پر اپنے حساب سے فیصلہ کریں گے اوراس کے لئے کوئی وقت کی میعاد مقرر نہیں کی جا سکتی۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی بنچ نے کانگریس اور جنتا دل (ایس) کے باغی ممبران اسمبلی کی درخواستوں پر عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ “ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ ریاستی اسمبلی کے تمام 15 باغی ارکان اسمبلی کو اگلے حکم تک ایوان کی کارروائی میں حصہ لینے کے لئے پابند نہیں کیا جانا چاہئے “۔ جسٹس رنجن گگوئی نے بنچ کی طرف سے حکم سناتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں کو اختیار دیا جانا چاہئے کہ وہ اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لیں یا نہ لیں عدالت عظمی نے کہا کہ اسمبلی اسپیکر کے آر رمیش کمار کو متعینہ مدت کے اندر باغی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے رولنگ میں کہا کہ اس معاملے میں اسپیکر کا کردار اور ذمہ داری پر کئی اہم سوال اٹھے ہیں، جن پر بعد میں فیصلہ کیا جائے گا۔ فی الحال آئینی توازن قائم کرنے کے لئے وہ اپنا عبوری حکم سنا رہے ہیں۔ جسٹس رنجن گوگوئی نے باغی ارکان اسمبلی کے استعفے پر اسمبلی اسپیکرکے فیصلے سے عدالت کو مطلع کرنے کی ہدایت بھی دی۔ اس معاملے میں آئینی مسائل کے عدالتی جائزہ کے سوال پر عدالت نے کہا کہ “اس موقع پر آئینی توازن برقرار رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔

ایسی صورت میں ہمیں فی الحال عبوری حکم کے ذریعے آئینی توازن بنانا ہوگا۔ اس کے تحت اسمبلی اسپیکر 15 باغی اراکین اسمبلی کے استعفے پر اپنے حساب سے مناسب وقت پر فیصلہ کریں گے “۔ جسٹس گوگوئی نے کہا کہ “ہمارا خیال ہے کہ موجودہ صورت میں فیصلہ کرتے وقت اسمبلی اسپیکر کی مراعات میں عدالت کی کسی ہدایت یا تبصرے سے خلل نہیں ڈالا جانا چاہئے ” ۔ واضح رہے کہ کرناٹک کے باغی ارکان اسمبلی نے اسمبلی کے اسپیکرکی طرف سے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کئے جانے کو چیلنج کیا تھا۔ درخواست گزار باغی ارکان اسمبلی کی جانب سے سینئر وکیل مکل روہتگی نے کل دستور کی دفعہ 190 کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل دی تھی کہ اگر کوئی رکن اسمبلی استعفی دیتا ہے تو اسے منظور کیا جانا چاہئے ، یہاں تک کہ اگر اس کے خلاف نااہل ٹھہرائے جانے کا عمل کیوں نہ شروع کیا گیاہو۔ روہتگی نے استعفیٰ دینے والے ارکان اسمبلی کی تعداد کم کرنے کے بعد حکومت کے عدم استحکام کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ “اس عدالت کے سامنے اپیل دائر کرنے والے ارکان اسمبلی کی تعداد کم کر دی جائے تو ریاستی حکومت کا زوال یقینی ہے ۔ اسی لئے اسپیکر جان بوجھ کر استعفیٰ قبول نہیں کر رہے ہیں۔اسمبلی اسپیکر کی جانب سے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے دلیل دی تھی کہ نااہل ٹھہرائے جانے کی کارروائی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔