مولوی سید امین الدین حسینی نظامی
گذشتہ صدی میں سرزمین دکن پر ایک ایسے مرد مجاہدکا بطن سے ظہور ہوا جو بیک وقت عالم باعمل ، عارف باللہ ، معلم ومفکر ، مدبر ومحرر ، مصنف ومحقق ، منطقی وفلاسفی ، قائد وعابد ، ادیب وخطیب کے مالک تھے جنہیں عوام وخواص شیخ الاسلام عارف باللہ الحافظ امام محمد انوار اللہ فاروقی کے نام نامی سے جانتے ہیں جنہیں خالق کائنات نے جملہ علوم وفنون میں امامت کا درجہ عطا فرمایا ۔ آپ درسیات ، علم قرآن ، علم تفسیر ، علم حدیث ، علم فقہ ، علم تصوف ، علم ادب ، علم بلاغت ومعانی ، اصول تفسیر ، اصول حدیث وفقہ ، تعلیقات ، تحقیقات ، تشریحات ، تنقیدات حواشی وغیرہ جملہ علوم اسلامیہ پر کامل دسترس رکھتے ہیں جس پر آپ کی عظیم تصانیف اور قلمی شہ پارے شاہد وعادل ہیں ۔بالخصوص آپ کا قلمی نسخہ بنام ’’ مجموعۃ منتخبۃ من الصحاح الستۃ ‘‘ یہ وہ قلمی شہکار ہے کہ زمانہ محو حیرت ہے کہ کس طرح اس مرد قلند ر ، بوریہ نشیں درویش نے حیدرآباد کے گوشہ میںرہتے ہوئے اس قلمی نسخہ میں انمول موتیوں وجواہرات کو سمودیا ۔ آپ نے اس قلمی نسخہ میں فکر وفن کی اعلی صلاحیتوں کے جو جوہر دکھائے اس کو پڑھ کر عباقر محدثین وفقہاء اور دانشوران علم وفن حیرت کے وادیوں میں گم ہوگئے ۔ اس نسخہ میں آپ نے نہ صرف جدید ترجمۃ الباب کا اضافہ کیا بلکہ احادیث شریفہ کے ابواب میں راز ہائے سربستہ کو کھول کر امت کے سامنے پیش کیا ۔شیخ الاسلام نے ایک خاص زاویہ فکر سے صحاح ستہ کی احادیث کا انتخاب کیا یہ نسخہ مختلف ابواب پر عربی زبان میں ۳۶۵؍ صفحات پر مبسوط ہے ۔ جس پر یہ عبارت منقوش ہے ’’ محتویۃ علی فوائد فریدۃ ومنافع کثیرۃ ‘‘ جو اس نسخہ کی افادیت پر دال ہے ۔ شیخ الاسلام کے اس شہکار کی ا ن گنت خصوصیات ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں لیکن چند خصوصیات درج ذیل ہیں :
۱) شیخ الاسلام نے اس نسخہ میں صحاح ستہ سے احادیث شریفہ کا انتخاب فرماکر ان پر حاشیہ اور جدید باب قائم فرمایا ۔ ۲) اصلاح باطن ، استبراک بالآثار ، تزکیہ نفس اور حب رسول اللہ ﷺجیسے معانی استنباط فرماکر انہیں کو ابواب کا عنوان بنایا۔۳) حاشیہ نہایت مختصراور وسیع مطالعہ کا جامع گویا شیخ الاسلام نے دریا کو کوزہ میں بھر دیا ۔۴) اور یہ مخطوطہ باحثین کیلئے تاقیامت نادر موضوع اور بہترین موا د فراہم کرتا ہے ۔( نلخص از : ماٰثر شیخ الحدیث)
بانی جامعہ نظامیہ کا تراجم ابواب کے حوالے سے طرز استدلال : خداوندِ قدوس نے شیخ الاسلام کو جملہ علوم ومعارف کا بحر ذخار بنایا بالخصوص فہم حدیث اور شرح حدیث میں آپ کو یدطولی حاصل تھا ۔آپ نے مجموعہ ء منتخبہ میں احادیث شریفہ کی جو نفیس اور انوکھی تشریحات کی ہیں اور ایسے ہی احادیث شریفہ کے تحت جو مخصوص طرز استدلال اختیار فرمایا ان سے اکتساب فیض کی خاطر چند نمونے رقم طراز کرنے کی سعادت ومسرت حاصل کرتا ہوں جس سے ہم طالبان علوم ہی کو نہیں بلکہ خدّام علم حدیث کو بھی فہم احادیث اور شرح احادیث میں ہدایت وبصیرت ملے گی ۔
فتاویٰ جات میں مصلحت کا لحاظ : امام بخاریؒ نے عنوان ’’ اذا خاف الجنب علی نفسہ المرض‘‘ کے تحت جو حدیث شریف لائے۔’’ عن أبی وائل قال : قال أبو موسی لعبد اللہ بن مسعود : إذا لم یجد الماء لا یصلی ، قال عبداللہ : لو رخصت لم فی ھذا کان إذا وجد أحدھم البرد قال : ھکذا یعنی تیمم وصلی ‘‘ اس حدیث شریف کو نقل فرماتے ہوئے شیخ الاسلام نے یہ عنوان قائم فرمایا ’’ لحاظ المصلحۃ فی الفتو ی مع أنہ خلاف النص ‘‘ فتوی میں مصلحت وقت کا لحاظ کرکے شرعی حکم بتایا جائے گا باوجود یہ کہ خلاف نص ہو ۔ شیخ الاسلام علیہ الرحمہ نے کیسے ایک نہایت وسیع قانون اصول فقہ کا اس سے استنباط فرمایا اور ایک جملہ میں اس کو ظاہر کردیا جس میں معانی ومطالب کی گہرائی ایک سمندر جیسی ہے اور ہر زمانہ میں قضاۃ ومفتیان کرام کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔
احادیث شریفہ میں منقول الفاظ کی تاثیر
شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کی محدثانہ شان اورآپ کا انوکھا طرز استدلال یہی ختم نہیں ہوا ایک اور حدیث پاک امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے ’’ باب فضل من بات علی الوضوء ‘‘ کے تحت جو حدیث شریف ذکر کی ہے ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک صحابی نے حضور ﷺکو دعا کے الفاظ سناتے ہوئے ’’بنبیک‘‘ کے لفظ کی جگہ ’’برسولک‘‘ سنایا تو حضور ﷺ نے فرمایا ’’بنبیک‘‘ پڑھو ۔اس حدیث شریف کے ضمن میں شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کی محدثانہ شان اور آپ کا طرز استدلال ملاحظہ ہو اس پر یہ عنوان قائم فرمایا ’’ لتاثیر فیما ورد فی الحدیث دون معناہ ‘‘ حدیث شریف میں جو کلمہ وارد ہوا اس میں جو تاثیر ہے ا س کے ہم معنی لفظ میں نہیں صرف ایک ہی جملہ میں آپ نے معانی ومطالب کا ایک سمندر سمودیا ،( ۴)۔علاوہ ازیں تاقیامت احادیث شریفہ کی عبارت خوانی کرنے والوں کے لئے ایک اصول اور ضابطہ مقرر کردیا کہ مکمل انہما ک اور یکسوئی سے عبارت خوانی کا اہتمام کریں ،علاوہ ازیں احادیث شریفہ میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں ان کو ملحوظ رکھیں تاکہ احادیث شریفہ کے الفاظ میں جو فیوض وبرکات مضمر ہیں صدفیصد قاری کو حاصل ہوجائے ۔ …(جاری ہے )
سابقہ شریعتوں کے غیر منسوخ مسائل قابل حجت :
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ باب اذا استأجر أجیرا علی أن یقیم حائطا یرید أن ینقض جاز ‘‘ (۵) کے تحت حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ کا وہ حصہ بیان کیا جب حضرت خضر علیہ السلام نے گاؤں والوں کی دیوار درست فرمائی اس کے باوجود گاؤں والوں نے ان دونوں کی ضیافت کا اہتمام نہیں کیا تو ایسے موقعہ پر حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا ’’ لو شئت لاتخذت علیہ أجرا ناکلہ ‘‘ ۔ اس حدیث شریف کے ضمن میں شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کے طرز استدلال کی شان ملاحظہ ہو آپ نے اس موقعہ پر اصول فقہ کا بنیادی قاعدہ بیان فرمایا ’’ الشرائع حجۃ فیما لم ینسخ ‘‘ سابقہ شریعتیں ہمارے لئے قابل حجت ودلیل ہیں ان مسائل میں جن کے متعلق قرآن وحدیث میں کوئی نکیروارد نہ ہوئی ہو۔ (۶)
ازروئے شرع دن اور وقت کی تعیین کا جواز :
اسی طرح امام بخاری علیہ الرحمہ ’’ کتاب أبواب الحرث والمزارعۃ ‘‘ کے ضمن میں حدیث پاک ذکر فرمائی ’’ عن سھل بن سعد أنہ قال إن کنا لنفرح بیوم الجمعۃ کانت لنا عجوز تأخذ من أصول سلق لنا کنا نغرسہ فی أربعائنا فتجعلہ فی قدرلھا فتجعل فیہ حیات من شعیر لا أعلم إلا أنہ قال لیس فیہ شحم ولا ودک فاذا صلینا الجمعۃ زرنا فقربتہ إلینا فکنا نفرح بیوم الجمعۃ من أجل ذلک وما کنا نتغدی ولا نقیل إلا بعد الجمعۃ ‘‘ ۔(۷)
شیخ الاسلام علیہ الرحمہ نے مذکورہ حدیث شریف پر یہ فائدہ تحریر فرمایا ’’ تعین دراطعام وتعیین اوقات ‘‘ مذکورہ جملہ پر غور فرمائیں کہ کس طرح نفیس انداز میں شیخ الاسلام علیہ الرحمہ نے تعین دن کے مخالفین کو حدیث شریف کی روشنی میں جواب دے کر مخالفین کو دم بخود کردیا کہ دن اور وقت مقرر کرنا از روئے شرع درست ہے ۔
اور ایسے ہی مخصوص ایام میں مخصوص کھانوں کا اہتمام والتزام کرنا بھی جائز ودرست ہے ۔ (۸)
تقلید فطرت انسانی میں داخل :
صحیح بخاری شریف میں حدیث شریف مذکور ہے ’’ عن أبی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ أوینصرانہ أو یمجسانہ ‘‘ الخ (۹)۔ مذکورہ حدیث شریف کے ضمن میں شیخ الاسلام نے یہ باب قائم فرمایا ’’ الإیمان أولہ بالتقلید ‘‘ (۱۰)، مذکورہ جملہ کے ذریعہ شیخ الاسلام نے تقلید کے منکرین ، اس پر طعن وتشنیع کرنے والے اور اس کے عدم جواز کے قائلین کو ایسا دندان شکن جواب دیا کہ وہ دم بخود ہوگئے اور عقل کے اندھو ں کو نقل وعقل کے ذریعہ سمجھایا کہ غور کرو ہر نومولود کا دین ومذہب اس کے ماں باپ کے تابع ہے اگر والدین یہودی تو بچہ بھی یہودی اگر والدین عیسائی تو بچہ بھی عیسائی اگر والدین مسلمان ہو تو بچہ مسلمان کہلائے گا علاوہ ازیں بچہ کے اہل خانہ معاشرہ ملکی قانون سب اس کو والدین کا مقلد قرار دیتے ہوئے والدین کے مذہب سے منسلک کرتے ہیں ۔
مقام غور ہے کہ ایمان جوتمام عبادات کی اصل اور بنیاد ہے اس کے بغیر اعمال کا کوئی اعتبار تو نہیں تقلید کے منکرین غور وخوص کریں کہ ایمان جو تمام عبادات کی جڑہے اس کا آغاز ہی تقلید سے ہورہا ہے تو عبادات ، معاملات وغیرہ میں ہم کیسے ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید کے بغیر راہ نجات پاسکتے ہیں ؟ یہ ایسی حقیقت ہے جس کو کوئی حقیقت پسند انکار نہیں کرسکتا ۔
خلاصہ کلام :
مذکورہ بالا امثلہ اور استدلالات کے ذریعہ شیخ الاسلام کا علمی مقام ، محدثانہ شان اور آپ کا انوکھا طرز استدلال واضح اور نمایاں ہوجاتا ہے کہ کس طرح آپ تمام علوم اسلامیہ میں امامت کے منصب پر فائز تھے مزید برآں کہ خدا وندِ قدوس نے آپ کو کس قدر فہم حدیث اور اس میں پنہا راز کو واضح کرنے کا ملکہ عطا کیا ، اس کے علاوہ آپ نے احادیث شریفہ پر ایک جدید باب قائم کرکے مختلف فقہی اصول وضوابط ، معمولات اہلسنت وغیرہ ثابت کرکے بے شمار مسائل کا استنباط واستخراج فرمایا ۔ اور تاقیامت آنے والے قضاۃ ، مفتیان کرام اور دانشوران علم وفن کے لئے راہ ہموار کردی اوریہ قلمی نسخہ اور اس کے حواشی معطر مضامین سے مہک رہے ہیں اور زبان حال سے یہ کہہ رہیں ہیں کہ کیا ہے کوئی ان انمول اور نایاب موتیوں کو چننے والا ؟ جو آکر ان انمول موتیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کردنیا وآخرت کو سنوارلے ۔
ہم بھلا کیا لے سکیں گے جائزہ انوار کا
دور تک پھیلا ہو ہے دائرہ انوارکا
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
مصادر ومراجع :
‘‘ ، سنہ اشاعت ۲۰۱۹ء ،صفحہ ۱۶۸، طباعت : مطبع ابو الوفاء الأفغانی ۔
۴) حوالہ سابقہ ۔
۵) صحیح بخاری ، کتاب الاجارۃ ، حدیث نمبر : ۲۲۶۷ ۔
۶) ملخص از : انوار نظامیہ ، ’’ شیخ الاسلام کمحدث متضلع وفقیہ متبحر‘‘ مضمون نگا ر : مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی ، سنہ اشاعت : ۲۰۱۶، شمارہ ۲۵، صفحہ : ۱۲۷ ۔
۷) صحیح بخاری ، کتاب الحرث والمزارعۃ ، حدیث نمبر : ۲۳۴۹ ۔
۸) صحیح بخاری ، کتاب الجنائز ، حدیث نمبر : ۱۳۸۵ ، مطبوعہ : دارابن کثیر بیروت ۔
۹) ملخص از : انوار نظامیہ ، ’’ شیخ الاسلام کا فقہی مقام ‘‘ ، مضمون نگار : مولانا سید واحد علی قادری ، سنہ اشاعت ۲۰۰۹، صفحہ : ۵۹ ۔
۱۰) ماخوذ از ’’ مجموعۃ منتخبۃ من کتب الصحاح ‘‘ ، مقالہ نگار : مولانا محمد شبیر احمد صاحب ، صفحہ : ۱۳۹ ۔