باٹلہ ہاوز انکاونٹر کے 12سال بعد‘ مقامی لوگ واقعہ کا یاد کرنا بھی نہیں چاہا رہے ہیں۔

,

   

نئی دہلی۔بارہ سال کاعرصہ گذر گیا باٹلہ ہاوز انکاونٹرکو پیش ائے جس میں دہلی پولیس کی اسپیشل سل نے دعوی کیاتھا کہ ملک اورقومی درالحکومت کے مختلف حصوں میں دھماکوں کی ذمہ دار انڈین مجاہد کے اہم سرغنوں کو مار گرایاہے۔

جامعہ نگر کا وہ فلیٹ جہاں پر دہشت گرد مقیم تھا ویران نظر آتا ہے اور اس فلیٹ میں اس کے بعد سے اب تک کوئی نہیں آیاہے‘ جہاں پر ائی ایم کے لوگوں کوڈھیر کیاگیاتھا۔

ایل18کے مکین اس دن کے بارے میں یاپھر بارہ سال بعد بھی اس انکاونٹر کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتے ہیں۔

کوئی بھی اس واقعہ کو یاد کرنا نہیں چاہتا ہے۔اس گلی کوجانے والی سڑکوں پر اس روز کے کوئی بھی پرانے تاثر دیکھائی نہیں دیتے او رلوگ کاکام جو ہے ویسا ہی چل رہا ہے۔

لوگ اپنے معمول کے کام پر لگے ہوئے ہیں۔اگرکوئی2008کے انکاونٹر کی بات کرتا ہے تو اس کو وہ شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

یہاں تک دوکاندار بھی اس واقعہ کے متعلق سرگوشی کرتے ہیں مگر وہ نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے ہیں

۔باٹلہ ہاوز کے قریب میں رہنے والی ایک درمیانی عمر کی عورت نے کہاکہ ”وہ رمضان تھا جب یہ واقعہ پیش آیا‘ ہرکوئی اپنے گھروں میں تھا مگرلوگوں کی چیخنے اورچلانے کے بعد واقعہ کے متعلق جانکاری ملی‘ اس کے بعد سے کوئی سرگرمی نہیں ہوئی ہے اور علاقے پرسکون ہے“۔

پرویز عالم خان سابق ویڈیو جرنلسٹ جو اب دہلی کانگریس میڈیا سل کے ساتھ کام کررہے ہیں نے کہاکہ ”علاقے میں رہنے والے لوگ اب بھی اس بات سے واقف نہیں ہیں اس روز کیاواقعہ پیش آیا جس کی عدالتی تحقیقات نہیں ہوئی تھی‘

یہاں تک کے اروند کجریوال نے بھی کہاتھا کہ وہ تحقیقات کے لئے دباؤ ڈالیں گے مگر ایسا نہیں ہوا ہے“۔

واقعہ کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چانکیا پوری میں چیف منسٹر گجرات کا ایک انٹرویو شوٹ کرنے کا وہ انتظار کررہے تھے اسی وقت دفتر سے فون کال آیا کہ باٹلہ ہاوز پہنچووہاں سے فائیرنگ کی جانکاری ملی ہے۔

تقریبا10کا وہ وقت تھا۔انہوں نے کہاکہ ”ہم ایک رپورٹر جو ایک نیوز چینل کا کے ایڈیٹر ہیں ان کے ساتھ موقع پرپہنچے وہاں پر ہجوم اور پولیس علاقے میں موجود تھی‘

اس وقت تک انسپکٹر موہن چند شرما کی پہلے ہی گولی لگنے سے ہولی فیملی اسپتال میں موت ہوگئی تھی“۔

مخالف دہشت گردی اپریشن انجام دینے والے مذکورہ اسپیشل سل کی نگرانی اس وقت کرنے والے جوائنٹ کمشنر آف پولیس کرنیل سنگھ نے اس واقعہ پر ایک کتاب لکھی”باٹلہ ہاوز۔ ایک انکاونٹر جس نے ملک کو ہلاکر رکھ دیا“۔

انہوں نے انکاونٹر کی تفصیلات پیش کیں اور اس پر اٹھائے گئے کچھ سوالات کے کتاب میں بے باکی کے ساتھ جواب دیا ہے۔

سابق ائی پی ایس افیسر نے بیان کیاکہ اسپیشل سل ٹیم نے انفارمیشن اکٹھا کرلی اور 18ستمبر2008تک عاطف امین کے قریب پہنچ گئی تھی۔

مذکورہ فون نمبر جو متوفی دہشت گرد محمد عاطف امین استعمال کررہاتھا وہ مئی13کو جئے پور اور 26جولائی کو احمد آباد کے علاوہ 13ستمبر کو دہلی کرول باغ‘ کناٹ پیالس اور گریٹر کیلیش میں 2008میں کئے گئے سلسلہ وار بم دھماکوں کی سازش کا پردہ فاش کرنے میں کارآمد ثابت ہوا ہے۔

اس کتاب میں انہوں نے بتایاکہ پولیس کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ فلیٹ کے اندر چھپے لوگوں ان پر فائیرنگ کریں گے۔

افسران سادہ لباس اور بنا بلڈ پروف جیاکٹس کے تھے کیونکہ ابتداء میں ان لوگوں کو زندہ پکڑنے کامنصوبہ بنایاگیاتھا۔

انہوں نے کتاب اس وقت کے یونین منسٹر کپل سبل سے ایل جی دفتر پر ہوئی ملاقات کے متعلق بھی تحریر کیاجس جہاں پرانکاونٹر کی تفصیلات سے انہیں واقف کرواناتھا وہ پولیس بات سے متفق ہوئے

اور بعد میں وزیراعظم من موہن سنگھ نے انہیں شاباشی دی اور کہاکہ پولیس نے بہترین کام انجام دیاہے اور جب ایل جی نے وزیراعظم سے انہیں ایک دفتری تقریب میں متعارف کروایاتھا تب دوبارہ انہوں نے ستائش کی تھی۔

جب پولیس کوسیاسی جماعتوں کی برہمی اور حکومت کی جانب دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور ہوم سکریٹری کی جانب سے عدالتی تحقیقات کے لئے کہاگیاجب سالیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم نے اس کے خلاف بحث کی تھی۔

کرنیل سنگھ سابق ائی پی ایس افیسر نے کہاکہ انہوں نے اس وقت کے جامعہ وائس چانسلر مشیر الحسن سے بھی ملاقات کی تھی جنھوں نے ائی ایم کے کارکن کو قانونی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیاتھا جب انہیں شواہد دیکھائے گئے تو انہوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیاتھا۔

جامعہ کمیونٹی ریڈیو کی ان کوشش کی سنگھ نے اپنی کتاب میں ستائش کی ہے جس کے ذریعہ علاقے میں پھیلے ہوئے کشیدہ ماحول کوپرسکون بناگیاتھا۔

دہلی کے سلسلہ وار بم دھماکوں کے ایک ہفتہ بعد 19ستمبر2008کوجامعہ انکاونٹر انجام دیاگیاتھا۔

انڈین مجاہدین کے دومبینہ دہشت گرد عاطف امین اور اس کا ساتھی مارے گئے تھے وہیں دو دیگر محمد سیف اور ذیشان گرفتارکرلئے گئے جبکہ محمد ساجد فرار ہونے میں کامیاب رہاتھا۔

انکاونٹر ماہر اوردہلی پولیس کے انسپکٹر موہن چند شرما اس واقعہ میں مارے گئے تھے۔ علاقے کے لوگ اب بھی اس واقعہ کے کمزور قطعہ کوجوڑنے میں ناکام ہیں۔

سالوں گذر جانے کے بعد بھی اس انکاونٹر کی حقیقت سے وہ شبہ ظاہر کررہے ہیں۔

اب بھی پولیسکے بیان پر انہیں بھروسہ نہیں ہے۔