کتنی حقیقتیں ہیں توجہ کی منتظر
منزل سے بے نیاز ہے ذوقِ سفر ابھی
بجٹ تجاویزپر عمل ضروری
مودی حکومت نے اپنے بجٹ اعلانات پر دیانتداری سے عمل آوری کا آغاز کیا ہوتا تو ملک میں عوام الناس کی ایک بڑی تعداد کو راحت نصیب ہوتی۔ بجٹ سیشن کا دوسرا حصہ بھی شروع ہوا ہے لیکن اس پر کارروائی ہنوز نامکمل ہی ہے۔ بجٹ سے متعلق تمام اُمور کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے کمزور ہونے اور ایوان میں یکطرفہ اکثریت کا اس نے فائدہ اٹھانا شروع کیا ہے۔ سالانہ بجٹ کے اعداد و شمار سے ہی حکومت کی پالیسیوں اور عوامی فلاحی کاموں کی تصویر سامنے آتی ہے۔ حکومت کے پاس تجاویز تو بہت ہوں گی لیکن ان پر عمل کرنے کا جہاں تک سوال ہے یہ پارلیمنٹ میں زیر غور نہیں آیا ہے تو عوام تک پہونچنے میں کتنی تاخیر ہوگی یہ کہنا مشکل ہے۔ حکومت نے تو ایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ وہ ایک پُرکشش اور عوام کی بہبود والا ایجنڈہ رکھتی ہے اور اپنے وسیع تر منصوبوں کے ذریعہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام انجام دینا چاہتی ہے ۔ اس موضوع پر بولنے کے لئے حکومت کے نمائندے کافی ہیں لیکن عمل آوری کے لئے کسی بھی نمائندہ کے پاس جواب نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا دوسرا حصہ پیر سے شروع ہوا ، دو دن گذرنے کے بعد بھی مودی حکومت نے بجٹ پر اپنے نشانہ کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پارلیمنٹ کا موجودہ سیشن کسانوں کے احتجاج کے پس منظر میں ہورہا ہے۔ حکومت کے 3 زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہے کسانوں کی فریاد کو بھی نظرانداز کردیا گیا ہے۔ جن 3 بلوں کی مخالفت ہورہی ہے اس پر اثباتی رائے دینے کے بجائے حکومت نے غیر مخلصانہ رویہ اختیار کرلیا ہے نتیجہ میں گذشتہ سال ستمبر میں تنازعہ کے درمیان منظورہ قوانین کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کسانوں نے احتجاج شروع کیا جو 100 دن پورے کرچکا ہے۔ زرعی قوانین کو جس عجلت میں منظور کرلیا گیا تھا اس پر کافی تنقیدیں ہورہی ہیں۔ حکومت اپنے خفیہ منصوبوں کو عوام پر من مانی طور پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو اس سے ناراضگیاں پیدا ہوں گی اور یہی کچھ ہورہا ہے۔ ملک کا ہر گوشہ حکومت کی کارکردگی سے ناراض ہے، صرف چند بھکتوں کی وجہ سے حکومت سمجھ رہی ہے کہ اس کے فیصلے عوام الناس کے لئے قابل قبول بن چکے ہیں۔ دراصل مودی حکومت اپنے آمریت پسندانہ رویہ کو ہی اپنے اقتدار پر جمے رہنے کی کامیابی سمجھ رہی ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ حکومت کو ابھی اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ اس کے خلاف عوامی سطح پر کس قدر غم و غصہ ہے۔ پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا دوسرا حصہ اپوزیشن کے لئے بھی اہم ہے، اگر اس نے مودی حکومت کی پالیسیوں اور بجٹ تجاویز پر ہوم ورک نہیں کیا تو وہ حکومت کا ہاتھ روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ زرعی قوانین کو جس عجلت کے ساتھ منظور کرلیا گیا اس پر احتجاج کرنا اپوزیشن کی ذمہ داری تھی لیکن پارلیمنٹ میں اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی‘ نتیجہ میں آج سڑکوں پر کسانوں کو احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔ عوام کے مسائل کو سمجھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر حکومت نے یہ ذمہ داری پوری نہیں کی ہے تو اپوزیشن کو اپنا رول ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن بھی کئی حصوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک منتشر اپوزیشن کمزور ہوجاتی ہے، جب اپوزیشن کمزور ہوتو پارلیمانی سیشن میں عوامی مفادات کا گلہ گھونٹنے کا حکومت کو کھلا موقع مل جاتا ہے۔ گذشتہ 7 سال سے یہی کچھ ہورہا ہے۔ اب موجودہ بجٹ سیشن میں بھی حکومت نے اہم معاشی بل لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ان بلوں میں حکومت کے اہم مالیاتی ادارہ کو فروغ دینے کا بل بھی ہے۔ اگر ان بلوں پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوگی اور ان مالیاتی بلوں کو یوں ہی یکطرفہ طور پر منظور کرلیا گیا تو اس کے سنگین اثرات آگے چل کر ظاہر ہونے لگیں گے۔ کسانوں کے احتجاج کی سنگینیاں کیا ہوں گی اس سے عوام ناواقف دکھائی دیتے ہیں، اس لئے وہ مودی حکومت کے خلاف آواز اُٹھانے والے کسانوں کی حمایت بھی نہیں کررہے ہیں۔ اگر عوام کی بڑی تعداد موودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتی تو اس ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہوتی۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ بات چیت میں پہل کرے اور اپوزیشن سے رجوع ہوکر عوامی مسائل سے واقفیت حاصل کرے اور یہی پارلیمانی ادارہ کا وقار اور رُتبہ ہے۔
