بجٹ تیاریاں اور تجاویز

   


مرکزی حکومت نے اپنے آئندہ بجٹ کی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ مختلف شعبہ جات سے تجاویز طلب کرتے ہوئے ان پر غور وخوض کا عمل بھی شروع ہونے والا ہے ۔ ملک کی الگ الگ ریاستوں نے بھی اپنے اپنے منصوبے اور تجاویز مرکز کو روانہ کرنے شروع کردئے ہیں۔ اپنے اپنے مطالبات سے بھی مرکز کو واقف کروایا جا رہا ہے ۔ ان بجٹ تیاریوں میں حکومت کی جانب سے سب سے خاص توجہ دی جاتی ہے ملک کی بڑی اور چنندہ ٹریڈ یونینوں کی رائے کو اور ملک کے مختلف شعبہ جات خاص طور پر صنعتی شعبہ ‘ تجارتی شعبہ ‘ زرعی شعبہ کے ماہرین کی رائے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے ۔ ان کی تجاویز حاصل کی جاتی ہیں۔ حکومت اپنے منصوبوں سے انہیں واقف کرواتی ہے ۔ مستقبل کے ارادوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔ حکومت کے پروگرامس پر رائے حاصل کی جاتی ہے اور سب گوشوں کی تجاویز کو حاصل کرتے ہوئے حکومت اپنے طور پر بجٹ کو تیار کرکے پارلیمنٹ میں پیش کرتی ہے ۔ خاص اہمیت دی جاتی ہے ٹریڈ یونینوں کی رائے کو ۔ ہندوستان میں دس تا بارہ بڑی اور مسلمہ ٹریڈ یونینیں ہیں جن کی رائے حکومتیں بجٹ کی تیاری سے قبل حاصل کرتی ہیں اور یہ یونینیں حکومت کو اپنی تجاویز بھی پیش کرتی ہیں۔ تاہم اس بار ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت بجٹ تجاویز حاصل کرنے کی روایت کو محض ایک رسم کے طور پر نبھانا چاہتی ہے اور کرنا وہی ہے جو شائد اس نے پہلے سے طئے کررکھا ہو۔ یہ طریقہ کار بجٹ کی تیاری پر اور اس کے عوامل پر اثر انداز ہوسکتا ہے ۔ بجٹ تجاویز طلب کرنے کیلئے سب سے پہلے تو حکومت نے اجلاس طلب کرنے سے گریز کیا ہے اور آن لائین اجلاس وہ بھی صرف 75 منٹ کیلئے طلب کیا گیا ہے جس میں رقمی اور ضروری کارروائیوں کے بعد ٹریڈ یونینوں کیلئے شائد ہی کوئی وقت بچ پائیگا کہ وہ اپنی رائے سے حکومت کو واقف کرواسکیں۔ حکومت کے منصوبوں پر کوئی رائے پیش کرسکیں اور اپنی جانب سے تیار کردہ کچھ تجاویز حکومت کے گوش گذار کرسکیں۔ اس طرح آن لائین مختصر سے اجلاس کے ذریعہ یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حکومت بجٹ تیاری کی جو روایت رہی ہے اس کو بھی بتدریج ختم کرنا چاہتی ہے ۔
وزیر فینانس نرملا سیتارامن کا جہاں تک سوال ہے تو وہ کسی بھی سوال کا کچھ ایسی منطق سے جواب دیتی ہیں جو حقیقت سے بالکل ہی بعید ہوتی ہے ۔ اگر لہسن اور پیاز کی قیمتوں میں اضافہ کی بات کی جائے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ تو لہسن کھاتی ہی نہیں ہیں۔ یہ کوئی جواب نہیں ہوسکتا ۔ یہ محض حقیقت سے نظریں چرانے کی کوشش ہی ہوسکتی ہے۔ اب جبکہ ملک میں کوئی کورونا قواعد نہیں ہیں۔ صورتحال معمول پر آچکی ہے ایسے میں اگر چنندہ ٹریڈ یونینوں کے ساتھ بات کرنی ہی ہے اور اس میں واقعی حکومت سنجیدہ ہے تو باضابطہ اجلاس منعقد کیا جاتا ۔ آن لائین رائے حاصل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ اس کے علاوہ ٹریڈ یونینوں پر واضح کردیا گیا ہے کہ انہیں اس آن لائین اجلاس میں اپنی تجاویز پیش کرنے کیلئے محض تین منٹ کا وقت دیا جائیگا ۔ ایک ٹریڈ یونین جو ایک برس تک ملازمتوں اور روزگار کے شعبہ میں کام کرتی ہے وہاں کے حالات کو سمجھتی ہے ۔ اسے مستقبل میں بہتر بنانے کے منصوبے تیار کرتی ہے اور حقیقت سے حکومت کو واقف کرواسکتی ہے اسے محض تین منٹ میں اپنے ایک سال کے مشاہدہ کا نچوڑ پیش کرنے کیلئے کہنا انتہائی غیرواجبی ہے ۔ اس سے حکومت کی سنجیدگی پر سوال پیدا ہوتگا ہے ۔ کیا واقعی حکومت ٹریڈ یونینوں کی رائے کو اہمیت دینا چاہتی ہے ۔ پہلے تو حکومت رائے سننے کو ہی تیار نظر نہیں آتی اور جب اس کا پہلے سے طئے شدہ کوئی منصوبہ اور پروگرام ہو تو پھر رائے لینے کا ڈھونگ کیوں کیا جا رہا ہے ؟ ۔ یہ ڈھونگ ہی ہے ۔
آج ملک میں جو معاشی صورتحال ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔ ملک کے عوام معاشی بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔ روزگار اور ملازمتوں کے شعبہ میں صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔ ہزاروں لوگ ملازمتوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام کی قوت خرید متاثر ہونے لگی ہے ۔ روزمرہ کی اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ ملک کے کئی شعبہ جات میں ملازمتوں کی تخفیف کی جا رہی ہے ۔ ہزاروں ملازمین کو برخواست کیا جا رہا ہے ۔ ایسے میں اگر ٹریڈ یونینوں کی رائے کو حکومت سنجیدگی سے لیتی تو اس مسئلہ کا کوئی حل دریافت کیا جاسکتا ہے ۔ محض رسمی طور پر کسی کی رائے لینے کا ڈھونگ کرنے سے مسئلہ حل نہیںہوگا ۔ حکومت کو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے قطعی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔