ضیاء الرحمن علیمی
موت،روح کے فنا ہوجانے کا نہیں بلکہ ایک زندگی سے دوسری زندگی کی جانب منتقل ہوجانے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ان کے پیچھے بعثت کے دن تک کے لیے برزخ کی زندگی ہے‘‘۔(مومنون۱۰۰)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے برزخی زندگی کا صراحت کے ساتھ ذکرفرمایاہے۔
لغت میں برزخ ہر اُس شئے کو کہتے ہیں جو دوچیزوں کے درمیان ہو،اور ان دونوں چیزوں کو ایک دوسرے میں گڈمڈ ہونے سے روکنے والی ہو،جب کہ اصطلاح شریعت میں برزخ زندگی کے اس مرحلےکا نام ہے جو موت سے لےکر بعثت کے دن تک محیط ہے،اس زندگی کو ہم قبر کی زندگی سے بھی جانتے ہیں۔
ایک طرف دنیاوی زندگی ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں، سنتےہیں،پہچانتے ہیں،خوشی اور غم کا اظہار کرتے ہیں، طاعت وبندگی کرتے ہیں،معصیت میںگرفتارہوتے ہیں، غذا استعمال کرتے ہیں اور پیشاب یا پاخانے کی بھی حاجت ہوتی ہےاور دوسری طبعی وبشری حاجتیں بھی پیش آتی ہیں۔ دوسری طرف اخروی زندگی ہے جہاں دیکھنا،سننا، پہچاننا،جنتی ہونے کی صورت میں صرف خوشی اور جہنمی ہونے کی صورت میں صرف غم اور تکلیف ہے، وہاں کھانااور پینابھی ہے ،لیکن ان کی کیفیتوں کو رب تعالیٰ ہی جانتاہے ،کیوں کہ ان کا تعلق غیبی معاملات سے ہے۔ ہم اُخروی زندگی کے حوالے سے صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایاہے۔
البتہ! یہ ہم یقین سے جانتے ہیں کہ وہاں بشری تقاضے اور سفلی حاجتیں مثلاً پیشاب، پاخانہ وغیرہ کی حاجت نہیں ہوگی۔چوں کہ یہ زندگی دنیاوی اور اُخروی زندگی کے درمیان برزخ ہے اس لیے اس زندگی کو دونوں زندگیوں کے ساتھ کچھ مماثلت پائی جاتی ہے۔موت کے ساتھ ہی انسان کی روح جسم سے جدا ہوجاتی ہے اور وہ عالم شہادت سے نکل کرعالم غیب میں داخل ہوجاتی ہے،اس لیے اصولی طورپر برزخی زندگی اُخروی زندگی کے زیادہ قریب ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:قبریاتو جنت کےباغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے،یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔(سنن ترمذی) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺنے قبر کو جنت کاباغیچہ یا پھر جہنم کا گڑھا فرماکر یہ اشارہ دیدیاہے کہ برزخی زندگی اُخروی زندگی سے زیادہ مشابہ ہے۔ یوںہی یہ بھی اشارہ فرمادیاہے کہ قبر میں لطف اندوز ہونا یاتکلیف اٹھانا جو کہ دنیاوالوں کی صفت ہے وہ بھی وہاں پائی جائےگی۔ اس طرح گویابرزخی زندگی کو دنیاوی زندگی کے مشابہ بھی کہا جاسکتاہے،لیکن یہ مشابہتیں بھی صرف لفظی ہیں حقیقی نہیں ۔
برزخی زندگی کے تعلق سے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ زندگی ایک حقیقی زندگی ہے کوئی خیالی یا تمثیلی نہیں،اور نہ ہی یہ زندگی مکمل طورپردنیوی زندگی کی طرح ہے۔اس زندگی کا اصل تعلق روح سے ہوتاہے جس میں مکمل شعور،کامل ادراک اور صحیح طورپر ایک دوسرے کی پہچان پائی جاتی ہے،اور مردےنبی،شہید،ولی اور عام مومن ہونے کے لحاظ سے اپنے حدود میں تصرفات بھی انجام دیتے ہیں ،مثلاً سننا، پہچاننا، مدد کرنا،دعا کرنا،خواب میں ظاہر ہونا،قبرمیں ملنے والی نعمتوں اورسزاؤںسے راحت وتکلیف پاناغرض کہ جو عموماً دنیا میں زندہ لوگوں کے اندر صفات پائی جاتی ہیں وہ برزخی زندگی میں بھی پائی جاتی ہیں۔