برطانیہ ، بریگزٹ کے بعد …

   

برطانیہ میں حالات تیزی سے تبدیل کرنے کی عجلت میں وزیر اعظم بورس جانسن نے یوروپی یونین سے علیحدگی کے بعد خودکو اس قدر بااعتماد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آگے چل کر برطانیہ کودوبارہ خود مختاری دلانے کا سحر چھارہا ہے۔ بورس جانسن ان لیڈروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے برطانیہ کو یوروپی یونین سے علیحدہ کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ یوروپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ کے اندر غیر ملکیوں سے نفرت کے واقعات ہونا تشویشناک ہیں۔ برطانیہ میں مقیم شہریوں کو پابند کیا جارہا ہے کہ انگریزی کاہی استعمال کریں ، بول چال کی دوسری زبان کا استعمال ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ برطانیہ میں غیر ملکیوں سے نفرت اور نسل پرستانہ رویہ نے ایک خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ بریگزٹ کے لئے اصرار کرنے والے لیڈروں نے اپنے ملک کے شہریوں کے لئے تو کچھ منصوبے بنائے ہیں لیکن ان غیر ملکیوں کا مستقبل کیا ہوگا یہ ابھی واضح نہیں ہوا ہے۔ برطانیہ جس دن یوروپی یونین سے علیحدہ ہوا، اسی درمیانی شب برطانیہ کے شہر نوروچ میں غیر ملکیوں سے نفرت کے واقعات سامنے آگئے ہیں۔ مقامی پولیس نے اس طرح کی دھمکیوں کا اگرچیکہ کے سخت نوٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے مگر آنے والے دنوں میں برطانیہ میں مقیم غیر ملکیوں کے لئے مزید کیا صورتحال پیدا کی جائے گی یہ غور طلب ہے۔بریگزٹ کے بعد یوروپی یونین سے علیحدگی کی مخالفت کرنے والوں نے وزیر اعظم جانسن کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاؤسنگ اسٹریٹ کے باہر احتجاجی مارچ بھی نکالا۔ برطانیہ میں اب دو گروپ بن گئے ہیں ، ایک گروپ بریگزٹ کا جشن منارہا ہے تو دوسرا گروپ سراپا احتجاج ہے۔ برطانیہ 47 سال تک یوروپی یونین کا حصہ رہا ہے۔ اب اس سے علیحدگی کے بعد برطانیہ اور یورو پی یونین کے درمیان آئندہ تعلقات کیا رُخ اختیار کریں گے یہ دیکھنا ہوگا۔ اس وقت یوروپی یونین نے تعلقات کو بہتر رکھنے کیلئے سفارشات بھی دائر کئے ہیں۔ برطانیہ کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی سطح تک لے جانے کے عزم کے ساتھ یوروپی یونین کے ذمہ داروں نے توقع ظاہر کی ہے کہ بہت جلد یوروپی یونین اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔ برطانیہ کو اپنی علیحدگی کے لئے ایک اچھے جذبہ کے تحت تعلقات کو بہتر بنانا چاہیئے تاکہ یوروپی یونین اور اس کے شہریوں کے مفادات کا تحفظ ہوسکے۔ برطانیہ کی خواہشات اور پسند کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہوگا۔ برطانیہ کے لئے اب سب سے غور طلب بات یہ ہے کہ اس نے یوروپی یونین کی ایک واحد مارکٹ سے دوری کے بعد اپنے لئے معاشی منصوبوں کو کس سطح تک قوی بنایا ہے یہ آگے چل کر معلوم ہوگا۔ یوروپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیریس کے خیال میں برطانیہ کی علیحدگی کے بعد اب تجارتی لڑائی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ برطانیہ اور بروسلز تجارتی مذاکرات میں اپنے مفادات کے لئے لڑرہے ہیں ۔ اب برطانیہ کے شہریوں کے لئے کئی سوال اُٹھ کھڑے ہوں گے کہ وہ یوروپی یونین کے معیارات سے ہٹ جانے کے بعد قرب و جوارکی مشترکہ مارکٹ تک رسائی کس طرح حاصل کریں گے۔ برطانیہ کے عوام کی اکثریت نے بریگزٹ کا فیصلہ لیا ہے تو یہ عوام کی مرضی کا احترام کرنے کے مترادف ہے لیکن برطانیہ کو اپنے نئے دور کی شروعات کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں نفرت کے ماحول کو فروغ دینے سے روکنا ہوگا۔ وزیر اعظم بورس جانسن کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ملکیوں کے تعلق سے غیر جانبدارانہ رول ادا کریں۔ 2016 میں برطانیہ ریفرنڈم میں برطانیہ کے 52 فیصد عوام نے یوروپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ 48 فیصد عوام نے مخالفت کی تھی۔ اس طرح برطانیہ میں دو قسم کے شہری مقیم ہیں۔ ایک معمولی اکثریت کے ساتھ ریفرنڈم کے حوالے سے یوروپی یونین سے علحدگی اختیار کرتے ہوئے برطانیہ کے عوام کو شدید طور پر منقسم کردیا گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اپنے اندر نفرت پیدا ہونے نہیں دیں گے یا بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے داخلی معاملات ملک کے لئے تشویشناک صورتحال پیدا کریں گے۔ ہر دو صورت میں حکمراں طبقہ کو ایک مضبوط عزم کے ساتھ پیشرفت کرنے کی ضرورت ہے۔