برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ

,

   

مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں:

اللّٰه تعالٰی نے رمضان المبارک کے ساتھ، وہ ساری برکتیں رکھی ہیں، وہ ساری روحانیتیں اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہیں جو آج سے تیرہ (تقریباً، ساڑھے چودہ) سو برس پہلے تھیں، اور خیر و برکت کے زمانے میں تھیں، یعنی لوگ تو وہ نہیں رہے، رمضان کی برکتیں اور رحمتیں وہی ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا، یہاں تک کہ بڑے بڑے صاحب کشف و ادراک بھی یہ دعوٰی نہیں کر سکتے کہ رمضان المبارک میں اب وہ خیر و برکت نہیں ہے اور رمضان المبارک میں مغفرت کرانے کی اور عِتْـقٌ مِـنَ الـنَّـار کی اب وہ خاصیت نہیں ہے۔ یا رمضان المبارک میں نماز پڑھنے کی، اور قرآن شریف کی تلاوت کی، اور نیکی اور غم خواری کرنے کی وہ خاصیت نہیں رہی، وہ اثر نہیں رہا، اور رمضان مبارک میں رحمت الٰہی کے وہ جھونکے اب نہیں چلتے، جو پہلے آندھی کی طرح چلا کرتے تھے۔ اس کا دعوٰی نہ کوئی فقیہ اور مفتی اور محدث کر سکتا ہے، نہ کوئی صاحبِ کشف و ادراک۔ تو اللّٰه تعالٰی کی یہ نعمت اب بھی باقی ہے۔ یہ اللّٰه تعالٰی کا احسان بالائے احسان ہے، نعمت بر نعمت ہے کہ ایک تو اللّٰه تعالٰی نے ہم کو اس وقت تک زندہ رکھا اور یہ رمضان المبارک ہم کو نصیب ہوا، تاکہ دونوں ہاتھوں سے ہم اس کی دولت لوٹیں۔

رمضان المبارک اور اس کے تقاضے/ صفحہ – ٦٦/٦