بشارالاسد کا زوال

   

تھا بہت ہی ناز اُن کو اپنی جھوٹی شان پر
کُھل گئی مٹھی بھرم کی کیا تھا اور کیا ہوگیا
ملک شام میں صورتحال بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ۔ ایک ہفتہ قبل باغی عناصر کی جانب سے جو پیشرفت شروع ہوئی تھی وہ بہت تیزی سے اپنے انجام کو پہونچی اور کہا جا رہا ہے کہ شام کے صدر بشارالاسد ملک چھوڑ کر فرار ہوچکے ہیں۔ کل سے ہی یہ اطلاعات گشت کر رہی تھیں کہ دارالحکومت دمشق کے اطراف باغی افواج کا کنٹرول بڑھ رہا ہے اور وہ دمشق کا محاصرہ کرنے لگی ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ بشارالاسد کی افواج نے دمشق کے اطراف سے اپنے ٹھکانے چھوڑ دئے ہیں اور خود بشار الاسد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ تاہم ابتداء میں ان اطلاعات کی توثیق نہیں ہو پائی تھی اور ان کی تردید کردی گئی تھی ۔ تاہم بہت تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں یہ توثیق ہوچکی ہے کہ باغیوں نے نہ صرف دمشق پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے بلکہ بشارالاسد ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ شام کے اتحادی ملک روس نے اس بات کی توثیق کردی ہے کہ بشار ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ویسے تو شام میں ایک دہے سے خانہ جنگی چل رہی تھی ۔ وقفہ وقفہ سے قتل و خون کا بازار گرم ہو رہا تھا اور خود شام اور شام کے عوام کا ہی نقصان ہو رہا تھا ۔ شام میں جو تباہی آئی ہے وہ بہت زیادہ کہی جاسکتی ہے ۔ اس ملک میں پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور اس جنگ بندی کے نتیجہ میں لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں اور پناہ گزینوں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جس طرح سے شام کی صورتحال میں اچانک اور انتہائی تیز رفتار و ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتہائی غیرمتوقع صورتحال ہے ۔ کم از کم یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ اتنی تیزی کے ساتھ صورتحال اس قدر تبدیل ہو جائے گی اور بشارالاسد کو ملک چھوڑنا پڑے گا ۔ حالانکہ بشار الاسد کو ایران اور روس جیسے ممالک کی تائید و حمایت حاصل تھی اور تازہ صورتحال میں امریکہ نے بظاہر اس صورتحال میں کسی طرح کی مداخلت سے گریز کیا تھا ۔ امریکہ کے منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے واضح کردیا تھا کہ امریکہ کو شام کی موجودہ صورتحال میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔ ساری بین الاقوامی برادری بھی اس معاملے میںخاموشی اختیار کی ہوئی تھی ۔
کہا جاتا ہے کہ بشارالاسد نے اپنے والد حافظ الاسد سے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں اصلاحات لانے اور دوسرے عوامی فلاح کے امور پر زیادہ توجہ نہیں دی اور انہوں نے بھی اپنے اقتدار کو طاقت کے بل پر آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی ۔ شائد یہ وجہ رہی کہ ملک کے عوام میں بھی ان کے تعلق سے بے چینی کی کیفیت تھی ۔ حالانکہ اس کیفیت کا کبھی کھل کرا ظہار نہیں کیا گیا تھا لیکن عوام کے دلوں میں عدم اطمینان ضرور پیدا ہوگیا تھا ۔ اسی صورتحال کا بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے بھی استحصال کیا گیا ۔ کچھ عناصر کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے وہاںبشارالاسد کا تختہ الٹنے کی کوششیں تیز کردی گئی تھیں۔ در پردہ بھی یہ کوششیں جاری تھیں اور ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرتے ہوئے بھی حالات کو مزید ابتر کیا گیا تھا ۔ وقفہ وقفہ سے جنگ میںتیزی اورشدت پیدا ہوئی تھی تاہم کسی کو بھی یہ امید نہیں تھی کہ اچانک اور اتنی تیزی کے ساتھ باغیوں کی پیشرفت ہوگی اور بشارالاسد کو ملک چھوڑ نا پڑیگا حالانکہ یہ تاثر عام تھا کہ ملک کے حالات پر بشار الاسد کی گرفت مضبوط ہے اور ان کی افواج باغیوں کو کئی برسوں تک روکے رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس تاثر کے باوجود باغیوں کی تیزی سے پیشرفت اور بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹنے میںان کی کامیابی نے ساری دنیا کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے ۔ صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین بھی اس تیز رفتار تبدیلی کو فوری طور پر قبول کرنے کے موقف میں دکھائی نہیںدے رہے ہیں۔
اب جبکہ ملک شام میں بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹ گیا ہے ۔تو اقتدار کی یہ تبدیلی توقع کے مطابق نہیں کہی جاسکتی اور نہ ہی یہ بہت سہل انداز میں ہوئی ہے ۔ یہ جنگ و جدال کا نتیجہ ہے ۔ اس کے بعد بھی جو صورتحال پیدا ہوگی وہ بھی غیر یقینی ہی کہی جاسکتی ہے اور جو عناصر اب شام میں اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کے عزائم کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہوگی ۔ ان کیلئے اب ملک میںصورتحال کو معمول پر لانے کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوگی جو آسان نہیں کہی جاسکتی ۔ اطراف کے ممالک کو بھی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہوئے شامی عوام کے مفادات اور کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔