’’بعد از رمضان … ؟؟؟‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
ماہِ رمضان المبارک آیا بھی اور چلا بھی گیا ۔ ہمارے جسموں کو اور دلوں کو پاکیزہ کرکے ، ہمیں ایک مہینہ عملی مشق اورتربیت دے کر ، ہم پر اﷲ تعالیٰ کی ہزاروں نعمتیں اور برکتیں نچھاور کرکے ، ہماری زندگیوں کو ازسرنو سنوار کے ، جس پر اﷲ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے ۔ آئیں دیکھیں کہ کس طرح ہم اپنے اس ’’رمضانی کردار ‘‘ کو سال بھر قائم رکھ سکتے ہیں ۔
(۱) اپنی حفاظت کیجئے : شیاطین ( جو اب زنجیروں سے آزاد ہوچکے ہیں ) کے شر سے اﷲ اور رسولﷺ کی نافرمانی سے ، والدین کی نافرمانی سے ، گناہوں سے ، رسول اﷲ کا فرمان ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے تب اُس کے دل پر سیاہی یا زنگ چڑھنے لگتا ہے ۔ اپنے مزاج کی بے اعتدالی سے ، اپنے یک رُخ پن سے اور اُسے دوسروں پر تھوپنے سے ، شدت پسندی سے ، دنگے فساد سے ، معاملات میں بے ایمانی سے ، غیرقانونی کاموں سے بالخصوص غیرقانونی تعمیرات سے اور اُن کی خرید و فروخت سے ، دوسروں کی جائیداد پر ناجائز قبضوں سے ، اپنی طاقت اور اثر رسوخ کا غلط استعمال کرنے سے ، لوگوں پر ظلم کرنے سے ، پڑوسیوں کو ستانے سے ، اُن کو تکلیف دینے سے ، جھوٹ کھسوٹ اور دھوکہ دہی سے ، فضول خرچی سے ، شادی بیاہ اور دوسرے رسومات میں اسراف سے ، بے کاری سے ، اپنا قیمتی وقت چبوتروں پر رات بھر بے سود ضائع کرنے سے ، مسلکی اختلافات ، فرقہ بندی اور آپسی جھگڑوں سے ، ہمارے لئے سیرۃ النبی ﷺ ہی کافی ہے کامیاب زندگی گذارنے کے لئے ، اپنے نفس کو شر سے اور اُس کی غلامی سے ، (یاد رکھئے ! انسان کا نفس خود اُس کا سب سے بڑا دشمن ہے جو اُس کو نیکی سے روکتا ہے اور بُرائی کی طرف راغب کرتا ہے ) ، حرام کی کمائی سے ، حرام کھانوں سے ، جو ہماری دُعاؤں کے ناقبول ہونے کی وجہ ہے ، بدکلامی سے ، گالی گلوچ سے ، زبان سے نکلے ہوئے تیز و طرار تیروں سے جو دوسروں کے دلوں کو مجروح کریں ، بُری سونچ اور بُرے گمان سے ، لوگوں سے جلن و حسد سے ، لوگوں میں نفرت پھیلانے والی فتنہ پروری سے ، نمازوں کے ترک کرنے سے کیونکہ ایمان اور کفر کے بیچ نماز ہی ہے ۔ سوشیل میڈیا کے فحش آیپس (Apps) سے ، فضول اور لاحاصل بحث و مباحثوں سے ، اپنے عیبوں کو چھپاکر دوسروں کے عیبوں کو اُجاگر کرنے سے ۔
(۲) جاری رکھئے : نیک کاموں کو ، کیونکہ یہی نیکیاں جب کبھی آپ کی زندگی میں طوفان آئے کشتیاں بن کر آپ کو ساحل تک پہنچائیں گیں ۔ بھائی چارگی کو ، انسانی ہمدردی کو ، اقرباء اور غرباء پروری کو ، ہم وطنوں سے حسن سلوک کو ، مشہور شاعر راحت اندروی نے کیا خوب کہا ؎ ’’پھولوں کی دوکانیں کھولو ، خوشبو کا بیوپار کرو ‘‘ ۔ آپ سب جانتے ہیں ’’محبت فاتح عالم‘‘ ۔ ہمارے بزرگ اکثر کہا کرتے تھے ’’زُباں شیریں مُلک گیری ‘‘ سُنَّتِ نبویؐ کی پیروتی کرتے ہوئے تلاوت قرآن کو ، اُس کو سمجھنے کو ، اُس پر عمل کرنے کو ، بروز پیر اور جمعرات کے روزے رکھنے کو ، رسول اﷲ نے فرمایا : یہ دونوں رمضان کریم کا تحفہ ہیں جو ایک نسخۂ کیمیا ہے جو ہمارے دلوں کو سیاہی اور زنگ کو صاف کرتا ہے ۔
مسجدوں کے آباد کرنے کو ، جس طرح ہم نے دوران رمضان کیا ، شریعت کے مطابق اپنے اعمال کو ، تاکہ ہماری عباتیں اور دُعائیں قبول ہوں ، صدقہ خیرات کو ، غم گُساری کو ، حُسنِ اخلاق کو ، اپنی لغزشوں اور گُناہوں کی اﷲ سے سچی توبہ و استغفار کو ، زھد و تقویٰ کو ، اﷲ کے ڈر کو کہ وہ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہاہے ۔ خود احتسابی کو ، اپنے دلوں کو روح سے جوڑنے کو تاکہ وہ پاک و صاف رہیں ۔ توکل اﷲ کو ، محنت و مشقت کو ، اپنے اپنے پیشوں میں ہنرمند بننے کو ، انفرادی طورپر خود ایک لیڈر بننے کو اور رحمۃ للعالمین ‘‘ کی صحیح معنوں میں اُمت بننے کی کوشش کو ، انقلابی شاعر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ؎
طوفانوں سے آنکھ ملاؤ ، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کا چکر چھوڑو ، تیر کر دریا پا ر کرو
’’یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِینِکَ‘‘ … آمین یارب العالمین