راہِ وفا طویل ہے پھر کون آئے گا
دل میں بسا کے کوچۂ جاناں بھی لے چلو
بلدی انتخابات اور سیکولر عوام
گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے لئے تمام بڑی اور چھوٹی پارٹیاں میدان میں ہیں۔ ریاستی حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی، قومی حکمراں پارٹی بی جے پی، ملک کی قدیم پارٹی کانگریس اور علاقائی پارٹیوں، آزاد امیدواروں کو انتخابی مہم میں مصروف دیکھا جارہا ہے۔ اس مرتبہ اہم بات یہ ہیکہ بلدی انتخابات کے لئے مہم چلانے کیلئے بی جے پی نے اپنے قدآور لیڈروں کو حیدرآباد طلب کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت بائیوٹیک تقریب کے بہانے حیدرآباد کا دورہ کیا۔ اسی طرح بی جے پی نے اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کو انتخابی مہم کیلئے حیدرآباد میں روڈ شو کروایا۔ بی جے پی نے بلدی انتخابات میں کامیابی کا نشانہ مقرر کرکے ریاستی دارالحکومت میں اپنے قدم مضبوط کرنے کا عزم کرلیا ہے۔ سیکولر رائے دہندوں کے درمیان فرقہ پرستوں کا غلبہ حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹراسمیتی کے لئے ایک چیلنج ہے۔ بی جے پی ہو یا کوئی اور پارٹی حیدرآباد کے بلدی انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ ایسے میں عوام کے اندر ایک خوف کا ماحول پیدا کرکے مخصوص قائدین نے حیدرآباد کے سیکولر کردار کو مسخ کرنے کا خفیہ منصوبہ بنایا ہے۔ عوام الناس کو اس منصوبہ کو ناکام بنانا ہوگا۔ ساری دنیا میں اس وقت ہر سیاسی پارٹی دائیں بازو کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کیلئے نفرت، زہر اور اشتعال انگیزی کا سہارا لے رہی ہے۔ امریکہ کے حالیہ انتخابات میں بھی نسل کشی، نفرت، مذہبی دل آزاری جیسے واقعات نے موجودہ صدر کو کرسی سے ہٹانے کا فیصلہ سنایا ہے۔ ہندوستان میں بھی صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے نظریات کی حامل قیادت کو فی الحال عوامی تائید حاصل ہے لیکن یہ پارٹی کب تک خیر منائے گی کیونکہ اب تک اس پارٹی کی کامیابی کی دوڑ برقرار تھی لیکن حیدرآباد میں قدم جمانے کیلئے اس نے فرقہ پرستی کے کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو منقسم کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ مذہبی خطوط ، نسلی سطح پر اور دیگر بہانوں سے رائے دہندوں میں پھوٹ ڈالنے کیلئے انتخابی مہم چلائی جارہی ہے۔ انتخابات کیلئے مہم چلانا ہر ایک پارٹی کا اختیار ہے لیکن اس انتخابی مہم میں کٹرپسند نظریات کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش ہرگز کامیاب نہیں ہوگی۔ شہر حیدرآباد کے عوام امن پسند، سیکولر مزاج کے ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ کے حامی ہیں۔ تلنگانہ کی حکمراں پارٹی ٹی آر ایس نے گذشتہ 6 سال کے دوران حیدرآباد اور تلنگانہ کے لئے جو خدمات انجام دی ہیں یہ عوام سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ایک پرامن، فسادات سے پاک ماحول میں عالمی کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کے وسیع تر مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ اس پرامن فضاء کو خراب کرنے کیلئے بی جے پی نے بلدی انتخابات کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ پرانے شہر میں سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا بیان دیکر بی جے پی کے قائدین نے ایک طرف لفظ سرجیکل اسٹرائیک کی توہین کی ہے دوسری طرف پرانے شہر کو پاکستان کا حصہ متصور کیا ہے جبکہ پرانا شہر حیدرآباد کا ایک قدیم شہر ہے جہاں ہر طبقہ کے لوگ مل جل کر رہتے آرہے ہیں۔ یہ بی جے پی ہی ہے جو عوام کو مذہبی خطوط پر منقسم کرکے اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کو بروئے کار لارہی ہے۔ بی جے پی کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ ایک قومی حکمراں پارٹی ہے اس پر سارے ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے لیکن وہ ہر چھوٹے بڑے الیکشن میں فرقہ پرستی کا کارڈ کھیل کر کامیاب ہورہی ہے مگر اس مرتبہ حیدرآباد کے نتائج پارٹی کے لئے سبق آموز ہوں گے۔ بی جے پی کے قائدین نے اپنے بیانات کے ذریعہ پارٹی کی قومی حیثیت پر ضرب لگائی ہے۔ ساری دنیا میں ہندوستان کی حکمراں پارٹی کے انداز، بول چال اور سوچ، نفرت کی سیاست کے چرچے ہیں۔ کوئی بھی پارٹی یا لیڈر نفرت کی سیاست کے ذریعہ زیادہ دن تک قائم نہیں رہ سکتی۔ عوام کو اس وقت نفرت کی نہیں بلکہ معاشی ترقی اور سماجی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ حیدرآباد کے رائے دہندوں کو یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر بی جے پی نے حیدرآباد میں قدم مضبوط کرلئے تو پھر یہاں کی پرامن فضاء کو خطرہ لاحق ہوگا۔ یکم ؍ ڈسمبر بلدی انتخابات کیلئے رائے دہی کا دن ہے۔ عوام کو ترقیاتی بنیادوں پر تلنگانہ کے حصول میں کامیاب پارٹی اور اس کے قائدین کی خدمات کو مدنظر رکھ کر ووٹ دینے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔
کورونا کی ویکسین کی مفت سربراہی
سعودی عرب نے کوروناوائرس کی ویکسین کو اپنے شہریوں میں مفت سربراہ کرنے کا فیصلہ کرکے تمام ملکوں کے سربراہوں کیلئے ایک قابل تقلید قدم اٹھایا ہے۔ ہندوستان میں بھی کوروناوائرس کے ویکسین کے بارے میں حکومت کی جانب سے ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن مرکز کی نریندر مودی حکومت اپنی کارکردگی اور حکمرانی کے فرائض کے درمیان منفعت کو زیادہ ترجیح دی ہے۔ عوام پر مختلف عنوانات سے بوجھ ڈالنے اور مالیاتی مسائل میں الجھانے کے سواء کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ اس حکومت سے کوروناوائرس کی ویکسین کی مفت سربراہی کی توقع کرنے والوں کو ابھی تک مایوسی ہی ہوئی ہے۔ سعودی عرب کے خطوط پر اب تک کسی بھی ملک نے ویکسین کی مفت سربراہی کا اعلان نہیں کیا۔ یہ وبا ہر شہری کے لئے خطرہ ہے۔ غریب ہو یا امیر اس وبا کی زد میں آرہا ہے۔ امیر لوگ اپنے لئے ویکسین کا بندوبست کرلیں گے لیکن غریب عوام کے لئے ویکسین کا حصول مشکل ہوگا۔ یہ تو حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہیکہ وہ عوام الناس کی صحت کا خیال رکھے۔ اب تک یہ بات معلوم ہوئی ہیکہ ویکسین کی تیاری آخری مرحلہ میں ہے بلکہ بعض ملکوں نے ویکسین کی ٹرائیل خوراک کا بھی استعمال کیا ہے جس میں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہیکہ ویکسین کے نتائج بہتر آرہے ہیں لیکن مستقبل میں یہ ویکسین ہر ملک کیلئے ایک لائسنس نہیں ہے کہ عوام الناس کوویڈ۔19 کے تمام پروٹوکول کو نظرانداز کردیں۔ حکومت کی جانب سے ویکسین کی تیاری اور عوام کیلئے تقسیم کا عمل شروع کرنے تک عوام الناس کو کوویڈ۔19 کیلئے اختیار کردہ تمام احتیاطی اقدامات کو ترک نہیں کرنا ہوگا۔ احتیاطی تدابیر میں انفرادی اور اجتماعی طور پر کورونا کو شکست دینے میں کامیابی ملے گی۔
