بلقیس بانو جیتے جی ایک نہیں دو بار مر گئی

   

ظفر آغا
دنیا کے کسی مہذب سماج میں یہ ممکن نہیں جس کو پچھلے ہفتے گجرات میں ممکن بنا دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ بلقیس بانو معاملے سے ہے۔ 15 اگست یعنی یومِ آزادی کا دن اور اس روز ہر ہندوستانی آزادی کی خوشیاں مناتا ہے۔ اس سال تو آزادی کی 75ویں سالگرہ تھی۔ چنانچہ سارا ملک ہی اس روز خوشی میں مگن تھا۔ جدھر دیکھو ملک کا ترنگا جھنڈا سربلند تھا، ہوا میں لہرا رہا تھا۔ ہر کس و ناکس آزادی کی خوشی میں ڈوبا تھا۔ صرف ایک شخصیت تھی کہ جس کی خوشیاں 15 اگست کو ماتم میں بدل گئیں اور وہ تھی بدنصیب بلقیس بانو۔ جی ہاں، وہی بلقیس بانو جس کی گجرات فساد کے درمیان سنہ 2002 میں اجتماعی عصمت دری ہوئی تھی۔ اس کی تین برس کی بیٹی صالحہ کو اس کی آنکھوں کے سامنے بلوائیوں نے مار دیا تھا۔ مجموعی طور پر بلقیس کے خاندان کے 14 افراد ایک دن کے اندر مارے گئے تھے۔ ظاہر ہے بدنصیب بلقیس بانو کی زندگی تب سے اب تک ایک المیہ بن چکی تھی۔ بس اس کے دامن میں اگر کچھ بچا تھا تو وہ یہ تھا کہ وہ 11 افراد، معاف کیجیے گا، افراد نہیں بلکہ حیوان، جو بلقیس کی عصمت دری اور اس کے اہل خانہ کے قتل میں شامل تھے، ان کو عمر قید کی سزا مل چکی تھی۔ بلقیس کو صرف یہ خیال سکون بخشتا رہا ہوگا کہ اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو سزا مل گئی اور وہ اپنے گناہ کے لیے جیل کاٹ رہے ہیں۔
لیکن بلقیس کا یہ سکون اور اطمینان بھی گجرات حکومت کی نگاہوں میں کھٹک رہا تھا۔ تب ہی تو عین یومِ آزادی پر یعنی 15 اگست کو بدنصیب بلقیس کو یہ خبر ملی کہ وہ گیارہ کے گیارہ لوگ جو اس کی عصمت دری اور دیگر مظالم میں شامل تھے، ان کو رِہا کر دیا گیا۔ جی ہاں، ان تمام مجرموں کو حکومت گجرات کے ایک پینل نے جیل سے آزادی کا تحفہ دے دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں، جب ان تمام افراد کا رہا ہونے کے بعد پھول مالا پہنا کر خیر مقدم کیا گیا۔ ان کی رِہائی کی خوشی میں گاؤں میں مٹھائی بانٹی گئی۔ وہ گاؤں جہاں کے یہ گیارہ افراد تھے، بلقیس کا بھی گاؤں ہے۔ خبروں کے مطابق ان افراد کے گھر بلقیس کے گھر کے آس پاس ہیں اور وہیں اسی مکان میں بلقیس کی عصمت دری ہوئی تھی۔
اب ذرا تصور کیجیے کہ بلقیس کو جب یہ خبر ملی ہوگی تو اس کے دل پر کیا بیتی ہوگی! یہ ایسی خبر تھی کہ جس کے بعد بلقیس کے ہوش تو اڑ ہی گئے ہوں گے، اس پر مزید کیا بیتی یہ ہم اور آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ شاید اس کے دل و دماغ میں پہلا خیال یہ آیا ہو کہ اب میرا کیا ہوگا! کیونکہ وہ گیارہ افراد جن کی سزا معاف کر آزادی کا تحفہ ملا، ان کو حکومت گجرات کا تحفظ حاصل ہے۔ تب ہی تو ان کو جیل سے رِہا کیا گیا۔ گجرات سرکار ہی کیا، ان تمام لوگوں کو وزیر اعظم مودی جی کی بھی پشت پناہی حاصل ہے۔ کیونکہ بلقیس کیس کے مجرموں کو رِہا کرنا ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ ظاہر ہے کہ گجرات سرکار کا اتنا اہم فیصلہ مودی جی کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بلقیس اس خبر سے کانپ اٹھی ہوگی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہ تمام واقعات پھر گھوم گئے ہوں گے جو اس کے ساتھ سنہ 2002 میں گجرات فسادات کے وقت پیش آئے ہوں گے۔ بلقیس کو ایک عجیب قسم کے عدم تحفظ نے آن گھیرا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ بلقیس اب کبھی چین کی نیند نہیں سو سکے گی۔
سوال یہ ہے کہ مسلم منافرت کی آگ کب اور کیسے رکے گی؟ آخر اس کی کوئی حد ہے کہ نہیں؟ ماب لنچنگ سے لے کر بلقیس کے مجرموں کی رِہائی تک مسلمانوں پر روز ایک قہر ٹوٹتا ہے، لیکن ملک والوں کو ہوش نہیں آتا ہے۔ ہوش تو جانے دیجیے، عام ہندو ہر چناؤمیں بی جے پی کی جھولی ووٹ سے بھر دیتا ہے۔ اس کو اپنی پریشانی کی فکر نہیں۔ وہ مہنگائی کے بوجھ سے دبا جا رہا ہے، بے روزگاری اس کے بچوں کا نصیب سیاہ کیے دے رہی ہے، خود ہندوستان تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا، لیکن ہندوستانیوں کی آنکھ نہیں کھلتی۔ عام ہندوستانی کو تمام مشکلات جھیلنے کے بعد بھی مسلم منافرت میں وہ لطف آ رہا ہے کہ وہ بلقیس کے مجرموں کی رِہائی پر تالی بجا رہا ہے اور مٹھائی بانٹ رہا ہے۔ بھلا ان حالات میں کاروان نفرت کہاں ٹھہرنے والا ہے۔
بلقیس بانو جیتے جی ایک نہیں دو بار مر گئی۔ لیکن اس کے مجرموں کی رہائی صرف بلقیس کی ہی دوسری موت نہیں ہے، یہ تو ہندوستانی سماج، ہندوستانی تہذیب، اور ہندوستانی سیاست کی بھی موت ہے۔ جب کوئی سماج عصمت دری کے مجرموں کی رِہائی پر خوشیاں منائے اور مٹھائی تقسیم کرے تو سمجھ لیجیے کہ وہ سماج تباہی کے غار میں جا چکا ہے۔ ایسے معاشرے کو کب ہوش آئے گا، یہ کہنا مشکل ہے۔ ہاں، یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ گجرات میں بلقیس کے مجرموں کی رِہائی سے ہندوستانی تہذیب و تمدن ضرور شرمسار ہوا ہے۔ خدا کرے کہ عام ہندوستانیوں کی آنکھیں جلد ہی کھل جائیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر تو بس اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔