’بلڈوزر جسٹس‘ پر سپریم کورٹ تماشائی نہیں ہوسکتا، جائزہ لینے کا عہد

,

   

عدلیہ کے کاموں کو افسران اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتے۔ شہری اور قانونی حقوق کا تحفظ ناگزیر

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کو ’بلڈوزر جسٹس‘ کے خلاف سخت فیصلہ سناتے ہوئے ملک گیر رہنما خطوط جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جرم کے مجرم یا ملزم کی جائیداد کو مناسب قانونی عمل کی پیروی کیے بغیر توڑپھوڑ کرنے والے افسر کو سزا دی جائے گی۔جسٹس بی آر گوائی اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے پناہ کے حق کو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت بنیادی حق کا ایک پہلو قرار دیا اور کہا کہ کسی ملزم یا کسی جرم کے مجرم کی رہائشی یا تجارتی جائیداد کو قانون کے مناسب عمل پر عمل کئے بغیر گرایا نہیں جاسکتا۔سرکاری افسران کی جانب سے اس طرح کی من مانی اور جابرانہ کارروائی کے خلاف تفصیلی رہنما خطوط جاری کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ اہلکاروں کی جانب سے ‘بلڈوزر کارروائی’ کرنا طاقت کے علیحدگی کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہوگی جس کے تحت عدلیہ کو ایسے معاملات پر فیصلہ کرنے کا اختیار سونپا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ شہریوں کی جان، آزادی اور املاک کو من مانے طریقے سے نہیں چھینا جا سکتا۔ امن و امان برقرار رکھنا اور شہریوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔جرم ثابت ہونے تک ملزم کی بے گناہی تصور کرنے کے اصول پر زور دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ مجرموں کو من مانی کی گئی کسی بھی کارروائی کے خلاف قانون کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے ۔ بنچ نے کہا کہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو اس طرح بے گھر ہوتے دیکھنا کوئی خوشگوار منظر نہیں ہے ۔بنچ نے کہا کہ ایگزیکیٹیو آفیسرس جج جیسا عمل نہیں کرسکتے۔ وہ کسی کو مجرم نہیں ٹھہرا سکتے اور انہیں ملزم کا گھر گرا دینے کے احکام جاری کرنے حق نہیں ۔