ستم بنام کرم وہ ہزار کرتے ہیں
جو دوستانہ میں پیچھے سے وار کرتے ہیں
حالیہ عرصہ میں ملک کی مختلف ریاستوں میں بلڈوزر کارروائیوںکا سلسلہ شروع ہوا تھا جو اب ایک باضابطہ روایت بن گئی ہے ۔ کئی ریاستوں میں کسی بھی مقدمہ میںملزم پائے جانے والے شخص کی جائیدادوںمکانات اوردوکانات کو منہدم کرنے کا سلسلہ اترپردیش سے شروع ہوا تھا جو بعد میں بتدریج کئی ریاستوں میں پھیل گیا ۔ خاص طور پر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں یہ روایت جڑ پکڑتی چلی گئی ہے ۔ مدھیہ پردیش ہو یا راجستھان ہو ‘ ہریانہ ہو یا اترپردیش ہو یا کچھ اور ریاستیں بھی ہوں کئی مقامات پر حکومتوں کی جانب سے عدالتی احکام حاصل کئے بغیر بے شمار دوکانات اور مکانات کو منہدم کرتے ہوئے سینکڑوںافراد کو بے گھر اور بیروزگار کردیا گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جن جائیدادوںکو منہدم کیا جارہا ہے ان کے مالکین کچھ مقدمات میںملزم ہیں۔ آج ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ ایسی کارروائیوں کی قانون میںکوئی گنجائش نہیں ہے ۔ عدالت نے کہا کہ کسی مقدمہ میںکوئی ملزم ہو یا پھر اسے سزا بھی ہوجائے تب بھی بلڈوزر کارروائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ ناجائز عمارتوں کو کوئی تحفظ فراہم نہیںکرے گی تاہم انہدام کیلئے قانون میں جو گنجائش فراہم کی گئی ہے اس کے مطابق اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ کئی گوشوںسے عدالت میں درخواستیںداخل کی گئی تھیں ۔عدالت نے ان کی سماعت کرتے ہوئے یہ رائے دی ہے اور کہا کہ وہ ملک گیر سطح پر عمل کرنے کیلئے کچھ رہنما خطوط بھی جاری کرے گی ۔ عدالت کا یہ اقدام سارے ملک کیلئے ایک مثال ہوگا اور اس کے ذریعہ غیرقانونی طور پر کی جانے والی انہدامی کارروائیاںرکیں گی اور اگر کچھ تعمیرات بھی غیر قانونی ہیں اور ان سے عوامی حمل و نقل متاثر ہوتی ہے تو ان کے انہدام کی راہ بھی ہموار ہوگی ۔ عدالت کا اقدام ملک کے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد کیلئے راحت کا باعث ہوگا اور اس کے نتیجہ میں عہدیدار اور حکام کی جانب سے من مانی انداز میں کارروائیوں کا سلسلہ بھی رک جائے گا ۔ جو رہنما خطوط جاری ہونگے ان پر عمل سب کیلئے لازمی ہوگا ۔
جس وقت سے اترپردیش میں بلڈوزر کارروائی شروع ہوئی تھی اس کے بعد سے کئی ریاستوں میں یہ سلسلہ شروع کردیا گیا تھا ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ کو بلڈوزر بابا تک قرار دیدیا گیا تھا اور لوک سبھا انتخابات کی مہم کے دوران بلڈوزروں کو عوامی ریلیوںاور جلسوںمیںپیش کرتے ہوئے اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ تک اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کارروائیاں در اصل مخصوط گوشوں کو نشانہ بنانے اور پھر اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے شروع کی گئی تھیں۔ اس ساری کارروائی میں قانونی گنجائش کا راستہ اختیار نہیں کیا گیا تھا اور من مانی انداز میں کوئی نہ کوئی عذر اور بہانہ پیش کرتے ہوئے یہ کارروائی ہوئی تھی ۔ مدھیہ پردیش ہو یا راجستھان ہو یا پھر ہریانہ یا کوئی اور ریاست ہو سبھی جگہ ایسی کارروائیاں کی گئی تھیں۔ یہ الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ ان کے ذریعہ مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس کے پس پردہ سیاسی محرکات بھی رہے تھے ۔ ان الزامات سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ ان میں سیاسی مقاصد رہے ہونگے اور قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ کارروائیاں کی جا رہی تھیں۔ ملک میں قانون اور عدلیہ موجود ہے اور کوئی بھی کارروائی قانون کے مطابق ہونی چاہئے ۔ عدلیہ کے ذریعہ احکام حاصل کئے جاسکتے ہیں اور ایسا ہی ہر معاملے میں کیا جانا چاہئے ۔ تاہم جتنے بھی معاملات اب تک پیش آئے ہیں ان میں بیشتر میں ایسا نہیں کیا گیا تھا ۔
اگر حکومتیں ہی قانونی راستہ اختیار نہ کریں اور من مانی انداز میں عہدیدار کام کرنے لگ جائیں تو یہ شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں کہ عہدیدار اور حکام قانون کا احترام کرنے کی بجائے سیاسی اشاروں کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ اب جبکہ ملک کی سب سے بڑی اور معزز عدالت نے واضح کردیا ہے کہ اس طرح کی انہدامی کارروائیوںکی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی اورایسی کارروائی کیلئے عدالت سے ہی رہنما خطوط جاری کئے جائیں گے تو حکومتوںاور عہدیداروں کو بھی اپنے اقدامات پر نظرثانی چاہئے ۔ انہیں بھی عدالتی احکام اور رہنما خطوط کے مطابق اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے ۔ من مانی سے گریز کرنا چاہئے ۔