بلڈوزر کارروائیاں اور مسلمان

   

ملک میں ایک نیا اور خطرناک رجحان چل پڑا ہے ۔ عہدیدار قانون اور عدالت سے رجوع ہوئے بغیر کسی کے بھی مکانات اور دوکانات کو منہدم کر رہے ہیں۔ بلڈوزر چلاتے ہوئے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپئے مالیتی املاک کو زمین بوس کیا جا رہا ہے ۔ ان کارروائیوںکا سلسلہ در اصل اترپردیش سے شروع ہوا تھا اور ان تقریبا تمام کارروائیوںکا نشانہ ملک کی کوئی بھی ریاست ہو مسلمان ہی بن رہے ہیں۔ اترپردیش سے جو سلسلہ چل پڑا تھا اس کو مدھیہ پردیش ‘ مہاراشٹرا اور دوسری ریاستوں میں بھی اختیار کیا گیا ۔ خاص طور پر مدھیہ پردیش کو ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس کی ایک اور لیباریٹری کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ کئی شہر ملک میں ایسے ہیں جہاںمسلمانوںکی جائیداد و املاک کو بلڈوزر کے ذریعہ تباہ کردیا گیا ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف مالدار مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ غریب اور مفلوک الحال مسلمانوں کی معمولی جھگی جھونپڑیوںاور دوکانات کو بھی ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے۔کسی معمولی سے جرم کا سہارا لیتے ہوئے ان املاک کو نشانہ بناتے ہوئے بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کیا جا رہا ہے ۔ یہ در اصل ماورائے قانون کارروائیاں ہیں کیونکہ کسی کو بھی اس طرح کی کارروائی کا بغیر عدالت کی اجازت کے اختیار نہیں ہے ۔ جہاں تک متاثرہ مسلمانوں کا سوال ہے تو انہیں تو یہ موقع ہی نہیںدیا جاتا کہ وہ عدالتوں سے رجوع ہوتے ہوئے اپنے لئے انصاف طلب کرسکیں۔ اچانک ہی بھاری پولیس فورس کے ساتھ عہدیدار پہونچ جاتے ہیں اور پھر مکانات ہوںیا دوکانات ہوں انہیںمنہدم کردیا جاتا ہے ۔ ابتداء میںیہ صرف اترپردیش تک محدود کارروائی تھی تاہم اب یہ ملک کی تقریبا ان تمام ریاستوں میں شروع کردی گئی ہے جہاںبی جے پی اقتدار میں ہے ۔ بی جے پی چیف منسٹرس اشتعال انگیزی اور مسلمانوںکے خلاف زہر اگلنے میں اپنے دستوری عہدہ کا بھی پاس و لحاظ رکھنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ اپنے ذہنی فتور کو عملی شکل دیتے ہوئے مسلمانوںکو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے مکانات اور دوکانات ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔
جہاں تک اجتماعی طورپر مسلمانوں کا سوال ہے تو بے حسی ہی دکھائی دیتی ہے ۔ جب کبھی کوئی کارروائی ہوتی ہے کچھ دیر کیلئے تاسف کا اظہار کیا جاتا ہے اور پھر زندگی کے مشغلوں میں سب مصروف ہوجاتے ہیں۔ مسلم ذمہ دار تنظیموں کا بھی اس معاملے میںرول سرگرم دکھائی نہیںدیتا ۔ اسی خاموشی اور عمومی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ فرقہ پرستوں کے عزائم اور ارادے بلند ہوتے جار ہے ہیں اوروہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے عمل کو مزید تیز کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میںمسلمانوںکو حرکت میںآنے کی ضرورت ہے ۔ بلڈوزر راج کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے ۔ حکومتوں اور عہدیداروں کو قانون کے کٹہرے میںلانے کی ضرورت ہے ۔ اس معاملے میں جب تک ایک منظم اور جامع جدوجہد نہیںکی جائیگی اور قانونی راستہ اختیار نہیں کیا جائیگا اس وقت تک مسلمانوں کی املاک کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں رکنے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ عہدیدار جو کارروائی انجام دے رہے ہیں اور ان کی جو وجوہات بتائی جا رہی ہیں ان میں بے شمار جھول موجود ہیں۔ قانونی نقائص ہیں۔ ان کو پیش کرتے ہوئے عدالتوں سے انصاف طلب کیا جاسکتا ہے ۔ مختلف ریاستوں میںپیش آئے واقعات کی بنیاد پر سپریم کورٹ سے بھی رجوع ہوا جاسکتا ہے ۔ عدالتوں کی ہدایات کے مطابق جو کچھ راستہ ہوسکتا ہے اس کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمانوںکے خلاف جو بلڈوزر کارروائی کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اس کو روکا جاسکے ۔
سارا ملک جانتا ہے کہ مسلمان پہلے ہی حالات کے مارے ہیں۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی تعلیمی ‘ سماجی اور معاشی حالت اس ملک میںپسماندہ طبقات سے بھی ابتر ہو کر رہ گئی ہے ۔ اس میں بھی اگر ان کے مکانات اور دوکانات کو منہدم کردیا جاتا ہے تو پھر وہ کہاں جائیں گے ؟ ۔ حکومت سے انصاف کی امید کرنا فضول ہی ہے ۔ اب قانونی راستہ اختیار کرنے اور عدالتوں سے مدد طلب کرنے کا وقت آگیا ہے اور اس کیلئے قومی سطح پر مسلم اداروں اور تنظیموں کو حرکت میںآنے کی ضرورت ہے ۔ سبھی کو ساتھ لے کر ایک دوسرے کی مدد سے غریب اور بے یار و مددگار مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کی ضرورت ہے ۔