بلڈوزر کارروائی روکنے سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل

,

   

اترپردیش میں قانون اور دستور کی خلاف ورزی، 12 سابق ججس اور ماہرین قانون کا چیف جسٹس کو مکتوب
جسٹس سدرشن ریڈی،جسٹس اے پی شاہ، جسٹس محمد انور، شانتی بھوشن اور پرشانت بھوشن شامل

حیدرآباد۔/14 جون،( سیاست نیوز) اُتر پردیش حکومت کی جانب سے احتجاجیوں کی املاک کے خلاف بلڈوزر کارروائیوں کی ملک بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔ سیول سوسائٹی کے بعد اب ملک کے سابق سپریم کورٹ، ہائی کورٹ ججس اور ماہر قانون داں حضرات نے اس معاملہ میں چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس این وی رمنا کو کھلا مکتوب روانہ کرتے ہوئے انہدامی کارروائیوں کا از خود نوٹ لینے کی اپیل کی ہے۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ احتجاجیوں کے ساتھ پُرامن انداز میں مصالحت کے بجائے ریاستی نظم و نسق نے مخصوص احتجاجیوں کے خلاف پُرتشدد کارروائی کو منظوری دی ہے اور جن کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے ان میں بیشتر کا تعلق اقلیتی طبقات سے ہے۔ سابق ججس اور ماہر قانون داں شخصیتوں نے چیف جسٹس آف انڈیا سے اپیل کی کہ وہ اُتر پردیش حکومت کی جانب سے مکانات کے انہدام اور احتجاجیوں کی حراست کا از خود نوٹ لیتے ہوئے کارروائی کریں۔ مکتوب پر 12 سابق ججس اور سینئر قانون داں حضرات نے دستخط کئے ہیں جس میں اُتر پردیش کی امن و ضبط کی بگڑتی صورتحال اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے معاملہ میں عدالت سے مداخلت کی اپیل کی گئی۔ سپریم کورٹ کے سابق ججس جسٹس بی سدرشن ریڈی، جسٹس وی گوپال گوڑا اور جسٹس اے کے گنگولی، دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سابق صدرنشین لا کمیشن آف انڈیا جسٹس اے پی شاہ، سابق جج مدراس ہائی کورٹ جسٹس کے چندرو، کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس محمد انور کے علاوہ ملک کے نامور ماہرین قانون شانتی بھوشن، اندرا جے سنگھ، چندر اودئے سنگھ، سری رام پانچو، پرشانت بھوشن اور آنند گروور دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ مکتوب میں بعض بی جے پی ترجمانوں کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ ریمارکس کے نتیجہ میں ملک کے کئی حصوں بالخصوص اُتر پردیش میں احتجاج کا ذکر کیا گیا۔ مکتوب میں کہا گیا کہ احتجاجیوں کی شنوائی کے بغیر اور انہیں پُرامن احتجاج کی ترغیب دینے کے بجائے اُتر پردیش نظم و نسق نے انفرادی طور پر انتقامی کارروائی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ چیف منسٹر نے اطلاعات کے مطابق عہدیداروں کو اس طرح کی کارروائی کی ہدایت دی ہے تاکہ دوسرے لوگ مستقبل میں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی جرأت نہ کریں۔ سابق ججس اور ماہرین قانون نے کہا کہ چیف منسٹر کے ریمارکس کے نتیجہ میں پولیس کو احتجاجیوں کے خلاف بیدردی کے ساتھ کارروائی اور غیر قانونی اذیت کا حوصلہ ملا۔ اُتر پردیش پولیس نے 300 سے زائد افراد کو گرفتار کیا اور احتجاجیوںکے خلاف ایف آئی آر درج کئے گئے۔ پولیس کی تحویل میں نوجوانوں کو لاٹھیوں سے پیٹنے اور احتجاجیوں کے مکانات کو کسی نوٹس اور کسی وجہ کے بغیر منہدم کرنے کے ویڈیوز سوشیل میڈیا میں وائرل ہوچکے ہیں جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہیں۔ مکتوب میں کہا گیا کہ مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے احتجاجیوں کو پولیس نے تعاقب کرتے ہوئے مار پیٹ کی۔ برسراقتدار نظم و نسق کی جانب سے بہیمانہ کارروائیاں ناقابل قبول ہیں جو قانون کی حکمرانی کی مخالفت کرتی ہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ یہ کارروائیاں دستور اور بنیادی حقوق کا کھلا مذاق ہے۔ مکتوب میں پولیس کی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ انہدامی کارروائیاں ماورائے قانون سزا ہیں اور ریاستی حکومت کی پالیسی کو ظاہر کرتی ہیں جو غیر قانونی ہیں۔ سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے سابق ججس نے مائیگرنٹ ورکرس اور پیگاسیس کے معاملہ میں عدالت کی از خود کارروائی کا حوالہ دیا۔ ر