بنگال انتخابات ‘ عوامی مسائل پس منظر میں

   


مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کا ماحول مسلسل شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ ریاست میں کئی مراحل میں رائے دہی کے اعلان کے بعد سے سیاسی سرگرمیوں میں شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ وزیراعظم نریندرمودی نے بھی آج بنگال پہونچ کر پارٹی کی انتخابی مہم کا عملا آغاز کردیا ہے ۔ ممتابنرجی ویسے بھی گذشتہ چند مہینوں سے عوام کے درمیان اتر چکی ہیں۔ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی اپنی حکمت عملی کو قطعیت دینا شروع کردیا ہے اور وہ بھی تیاریوں میں مصروف ہوگئی ہیں۔ تاہم جیسا کہ میڈیا میں دکھایا جا رہا ہے کہ اصل مقابلہ ترنمول اور بی جے پی کے درمیان ہوگا ۔ ویسے تو ہندوستان میں تقریبا ہر موسم میں انتخابات کا عمل کہیں نہ کہیں جاری رہتا ہے اور لوگ جمہوری عمل کا حصہ بنتے رہتے ہیں ۔ تاہم ایک بات جو گذشتہ کچھ عرصہ سے عام ہوگئی ہے وہ یہ کہ انتخابات کے ماحول میں بھی عوامی مسائل کہیں پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور صرف نزاعی ‘ اختلافی اور فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل کو ہوا دی جاتی ہے ۔ شخصی تنقیدیں کی جاتی ہیں۔ جذباتی نعرے لگائے جاتے ہیں۔ مذہب کی سیاست کرتے ہوئے ووٹ بٹورنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کسی کو ہندو سمرا ٹ کہا جاتا ہے تو کسی کو ہندووں کا مسیحا بنادیا جاتا ہے ۔ کہیں مسلمانوں کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو کہیں کسی کو مخالف ہندو قرار دیتے ہوئے جذبات کا استحصال کرنے کا حربہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔ یہ سارا کچھ ملک کے جمہوری نظام کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے ۔ پہلے انتخابات کے موسم میں عوامی مسائل پر تقاریر اور مباحث ہوا کرتے تھے ۔ میڈیا میں بھی حکومتوں کی کارکردگی اور اپوزیشن کی صلاحیتوں پر تبصرے ہوتے تھے ۔ عوامی نبض کو ٹٹولنے کی کوشش کی جاتی تھی تاہم اب عوام کے ذہنوں میں ایک سوچ اور ایک رائے مسلط کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ عوام کو خود ان کے اپنے مسائل سے بھٹکاتے ہوئے فرقہ وارانہ جذبات کا شکار کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ انتہائی اشتعال انگیز نعروں کو بڑھا چڑھا کر تشہیر دی جا رہی ہے اور ٹی وی مباحثوں میں ان کا جواز پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
اب جبکہ ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں ساری توجہ بنگال کی جانب مبذول کروادی گئی ہے ۔ بنگال میں ممتابنرجی حکومت کو کسی بھی قیمت پر بیدخل کرنے کیلئے بی جے پی سرگرم ہوگئی ہے ۔اس کیلئے بنگالی عوام کیلئے سہولیات اور راحتیں فراہم کرنے کی بات نہیں ہو رہی ہے بلکہ موقع پرست فلمی ستاروں کی چکاچوند سے عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ عوامی خدمات کا ریکارڈ رکھنے والے قائدین چاہے وہ کسی بھی پارٹی میں کیوں نہ رہے ہوں انہیں نظرا نداز کیا جا رہا ہے ۔ چکاچوند اور پیسے کی طاقت رکھنے والوں کی آو بھگت ہو رہی ہے ۔ ذمہ دار قائدین بھی اشتعال انگیز بیانات دینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ مقامی اور ریاستی مسائل پر مباحث نہیں ہو رہے ہیں۔ مہنگائی کو کم کرنے کی بات نہیں ہو رہی ہے ۔ عوام پر عائد ہونے والے بوجھ کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ نہ پٹرول وڈیزل کی قیمت پر بات ہو رہی ہے اور نہ ہی پکوان گیس سلینڈر کا کہیں تذکرہ ہو رہا ہے ۔ نہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہونے والے مسلسل اضافہ کو موضوع بحث بنایا جا رہا ہے ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے عوام سے اب تک کئے گئے وعدوں کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ کس حکومت نے اپنے کتنے وعدے پورے کئے ہیں یا کس حد تک عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھاتے ہوئے بیوقوف بنانے اور گمراہ کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے ۔ اس جانب کوئی بھی توجہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
فلمی ستاروں کی چکاچوند اپنی جگہ لیکن عوامی مسائل پر سب کی اولین توجہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ جو حکومتیں منتخب ہوتی ہیں وہ عوام کیلئے ‘ عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتی ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتوں کی ساری توجہ عوامی مسائل کی یکسوئی پر ہو ۔ انہیں راحت پہونچانے پر ہو۔ صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ملک کی عظیم جمہوریت کو نقصان پہونچانے کے مترادف ہے اور اس سے ہر جماعت کو پرہیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا جمہوری نظام کھوکھلا ہونے نہ پائے ۔