تیرا جو ستم ہے اس کو تو جان
اپنی سی تو خوب کرگئے ہم
بہار اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد بی جے پی کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں ۔ حالانکہ بہار میں این ڈی اے اتحاد نے کامیابی حاصل کی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سے بڑی جماعت کا موقف بی جے پی کو حاصل ہوا ہے ۔ تاہم بہار اور بنگال میں ایک بنیادی فرق ہے کہ بہار میں این ڈی اے کی ہی حکومت تھی جبکہ بنگال میں ممتابنرجی برسر اقتدار ہیں۔ اس کے علاوہ بنگال میں سارے این ڈی اے اتحاد نے مل کر مقابلہ کیا تھا اور سبھی جماعتوں کے ووٹ امیدواروں کو حاصل ہوئے تھے ۔ جہاں تک بنگال کی بات ہے تو بی جے پی کو وہاں تنہا مقابلہ کرنا پڑے گا جبکہ گذشتہ اسمبلی اور پارلیمانی دونوں ہی انتخابات میں بی جے پی کی نشستیں کم ہوئی تھیں۔ ابھی حالانکہ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کیلئے کافی وقت ہے تاہم ابھی سے اس ریاست میں سیاست تیز ہونے لگی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ترقیاتی حکومت ‘ حکومت کی کامیابیوں یا ناکامیوں سے زیادہ سیاست بابری مسجد پر ہونے لگی ہے ۔ بابری مسجد کو شہید ہوئے تین دہوںسے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اعتقاد کی بنیاد پر فیصلہ دیتے ہوئے اراضی رام جنم بھومی ٹرسٹ کو سونپ دی اور سپریم کورٹ کے حکم کی بنیاد پر ایودھیا میں رام مندر تعمیر ہوچکی ہے اور اس کا افتتاح بھی کردیا گیا ہے ۔ اس سب کے باوجود مغربی بنگال میں بابری مسجد کے نام پر سیاست شروع کردی گئی ہے ۔ مغربی بنگال میں برسر اقتدار ترنمول کانگریس کی جانب سے ہر سال بابری مسجد کی شہادت کے خلاف بطور احتجاج اور اظہار یگانگت کیلئے ایک ریلی نکالی جاتی ہے ۔ اس کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے نکالی جانے والی ریلی کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ ہر سال نکلنے والی اس ریلی کو اب بی جے پی سیاسی فائدہ کیلئے نشانہ بنارہی ہے اور اسے ووٹ بینک کی سیاست قرار دیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی بنگال میں فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ترنمول کانگریس ایسی تمام کوششوں سے نمٹنے کی اپنے طر پر تیاری کر رہی ہے ۔ انتخابات کی تیاری فرقہ وارانہ ماحول کوبگاڑتے ہوئے کرنے سے سبھی کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔
بنگال ملک کی وہ ریاست ہے جہاں بی جے پی اب تک تین مرتبہ ساری طاقت جھونکنے کے باوجود اقتدار کے قریب نہیں پہونچ پائی ہے ۔ اس کے ارکان پارلیمنٹ کی کچھ تعداد بنگال سے ضرور منتخب ہوئی تھی تاہم گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں اس کی نشستوں کی تعداد میں کمی آئی ہے ۔ ممتابنرجی کے تعلق سے کہا جا تا ہے کہ وہ ریاست کے عوام کی نبض کو بہتر طور پر سمجھتی ہیں اور بہتر انداز میں انتظامیہ پر اپنی گرفت بھی رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ے کہ بی جے پی کیلئے بنگال میں ااقتدار کا حاصل کرنا آسان نہیں ہوسکتا ۔ بی جے پی کو بھی ان تمام باتوں کا پوری طرح سے احساس ہے تاہم وہ سیاسی اعتبارسے اپنے آپ کو بنگال میں ممتابنرجی کا متبادل پیش کرنے کیلئے اپنی جانب سے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے اور بی جے پی ملک کی ہر ریاست کی طرح بنگال میں بھی فرقہ وارانہ جذبات کا استحصال کرنے کی حکمت عملی اختیار کر رہی ہے ۔ جس طرح کی سیاست کو بنگال میں اب ہوا دی جانے لگی ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عوامی مسائل پر نہیں بلکہ مذہبی جذبات کے نام پر انتخابات میں مقابلہ کی تیاری ہو رہی ہے اور اس کیلئے ایک پورا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے ۔ ترنمول کانگریس کی ریلی 6 ڈسمبر کو وسطی کولکتہ میں گاندھی جی کے مجسمہ کے قریب نکالی جانے والی ہے اور بی جے پی اس کو اپنے لئے ایک موقع سمجھتے ہوئے عوام کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہ بی جے پی کی ہمیشہ کی طرح منفی سوچ والی حکمت عملی ہے اور وہ اسی پر کاربند ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ ترنمول کانگریس کی جانب سے ملک ریاست میں پہلی بار اس طرح کی ریلی نکالی جا رہی ہے ۔ پارٹی کی جانب سے ہر سال یہ ریلی اظہار یگانگت کے طور پر نکالی جاتی ہے اور ہر بار یہ ریلی پرامن ہی ہوا کرتی ہے ۔ اس پر بی جے پی یا کسی نے بھی ابھی تک کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی رح کا مسئلہ بنایا گیا تھا ۔ اب چونکہ آئندہ سال بنگال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںا یسے میں بی جے پی اس ریلی کو مسئلہ بنانے اور مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس کے خلاف بنگال کے عوام کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور منفی سیاست کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے ۔