بنگال ‘ بی جے پی اور ممتا

   

اُس سے مہر و ممتا کی تم کو آرزو کیوں ہے
سازشوں کے خوگر کو سچ سے واسطہ کیا ہے
بنگال ‘ بی جے پی اور ممتا
بی جے پی نے جس وقت سے مغربی بنگال کو نشانہ بنا کر کام کرنا شروع کیا تھا اس وقت سے بنگال کی صورتحال انتہائی ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔ بی جے پی نے منظم انداز میں بنگال کیلئے حکمت عملی تیار کرتے ہوئے کام کیا تھا ۔ اس نے معمولی سے واقعات کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے سماج میں دراڑ اور نفرت پیدا کرنے کا کام کیا تھا جبکہ ممتابنرجی نے ریاست میں اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے بھی کچھ اقدامات کئے تھے ۔ ممتابنرجی کا خیال تھا کہ بی جے پی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ریاست میں سیاسی طور پر اپنے قدم جمانے میں کامیاب نہیںہوگی لیکن ان کا خیال یکسر غلط ثابت ہوا ۔ بی جے پی نے نچلی سطح سے کام کرتے ہوئے کیڈر کو تیار کیا اور ریاست کے عوام میں ایک طرح کی مذہبی بے چینی اور ہذیان کی کیفیت پیدا کی اور وہ اسے ووٹ دلانے میں کامیاب ہوگئی ہے ۔ اب بی جے پی کی جانب سے ریاست میں اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ اب اس کیلئے بی جے پی نے ابھی سے منصوبہ بندی کا آغاز کردیا ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ ریاست میںاسمبلی کی 250 نشستوں پر قبضہ کیا جائے ۔ تاہم یہ کام بی جے پی کیلئے بھی آسان نہیں کہا جاسکتا کیونکہ لوک سبھا انتخابات میں شکست کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ریاست میں ممتابنرجی کی گرفت انتہائی مستحکم ہے اور جب ریاستی اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے تو صورتحال مختلف ہوسکتی ہے اور ریاستی سطح پر ممتابنرجی کی حکومت کی کارکردگی کو لوگ ووٹ ڈالتے ہوئے نظر میں رکھیں گے ۔ بی جے پی اور ممتابنرجی کی باہمی جدوجہد میں جہاں سب سے اہم صورتحال یہ ہے کہ کمیونسٹ جماعتیں وہاں اپنی شناخت اور اہمیت دونوں ہی کھوتی جا رہی ہیں۔ کانگریس کا حال بھی ریاست میں اچھا نہیں کہا جاسکتا اور اس صورتحال میں ممتابنرجی کے سامنے جب تک اسمبلی انتخابات کا وقت آئیگا کسی مخالف بی جے پی طاقت سے اتحاد یا سمجھوتہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ جائیگا ۔ ممتابنرجی بھی ویسے تو ریاست میں حالات کو اپنے حق میں سازگار بنانے کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی شروع کرچکی ہے ۔
ممتابنرجی کے سامنے اپنی حکومت اور اقتدار بچانے کا چیلنج ہے تو بی جے پی کے سامنے ریاست میںاقتدار چھیننے کا نشانہ ہے ۔ اس ساری صورتحال میں دونوں ہی فریقین کی جانب سے الگ الگ حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی ‘ موجودہ دور کے چانکیا سمجھے جانے والے امیت شاہ کی حکمت عملی پر تکیہ کئے ہوئے ہے کیونکہ اب تک ان کی حکمت عملی کامیاب ہی رہی ہے ۔ ممتابنرجی نے اس کا جواب دینے کیلئے سیاسی حکمت عملی کے ماہر پرشانت کشور کی خدمت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پرشانت کشور نے بھی ممتابنرجی کے ساتھ کام کرنے سے اتفاق کرلیا ہے حالانکہ وہ جے ڈی یو سے تعلق رکھتے ہیں اور جے ڈی یو بی جے پی کی حلیف جماعت ہے ۔ جہاںامیت شاہ کی سیاسی حکمت عملی اور ان کی توڑ جوڑ کی صلاحیتوں نے اب تک بی جے پی کو مسلسل فائدہ پہونچایا ہے وہیں پرشانت کشور بھی سیاسی حکمت عملی کے تعین اور انتخابی کامیابیوںکے سلسلہ میں مہارت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اب تک بی جے پی کے ساتھ کام کیا ہے ‘ لالو ‘ نتیش اور کانگریس کو کامیابی دلائی ہے ۔ آندھرا پردیش میں انہوں نے جگن موہن ریڈی کے ساتھ مل کر کام کیا ہے اور وہاں جگن چیف منسٹر بن چکے ہیں۔ ان حالات میں یہ ضرور قابل غور صورتحال ہوگی کہ اسمبلی انتخابات کا وقت آتے آتے بی جے پی اور ترنمول کانگریس کی ایک دوسرے کو زیر کرنے کی حکمت عملی کیا ہوگی ۔
جہاں تک ممتابنرجی کا سوال ہے ان کے سامنے ابھی دو سال کا وقت ہے اورا ن دو برسوں کے دوران وہ ریاست کی صورتحال کو اور سیاسی حالات کو اپنے قابو میں کرسکتی ہیں۔ انہیں ریاست میںعوام کی توقعات کو بھانپنے اور ان کے مطابق اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں بی جے پی کی سازش کا شکار ہونے کی بجائے حکمرانی پر توجہ دینی چاہئے ۔ بی جے پی مسلسل متنازعہ اور پرتشدد مسائل میں اور اشتعال دلانے والے نعروں کے ذریعہ سیاسی استحصال کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے اور ممتابنرجی کو اس سازش کو سمجھتے ہوئے خاموشی سے اس کا جواب موثر ڈھنگ سے دینا چاہئے تاہم سب سے زیادہ عوام کی نبض کو پہچاننے اور اس کے مطابق حکمرانی پر ممتابنرجی کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔