بنگال ‘ ممتابنرجی اور بی جے پی

   

کیوں سبز باغ ہم کو دکھاتے ہیں آج آپ
ہم جانتے ہیں تلخ حقیقت کو دوستو
بنگال ‘ ممتابنرجی اور بی جے پی
ملک کے سرگرم انتخابی ماحول میں مغربی بنگال کی ریاست کو اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔ اترپردیش اور مہاراشٹرا کے بعد لوک سبھا نشستوں کے اعتبار سے بنگال ملک کی تیسری بڑی ریاست ہے اور یہاں بھی بی جے پی کا وہی حال ہے جو جنوبی ہند کی ریاستوں میں ہے ۔ بی جے پی اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں‘ توڑ جوڑ کی کوششوں اور فرقہ پرستانہ اقدامات کے باوجود یہاں عوام میں کوئی خاص مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب نہیںہوسکی ہے ۔ جس طرح جنوب میں کرناٹک کے سوا تمام ریاستوں میں بی جے پی سیاست کی چھٹی انگلی بنی ہوئی ہے اسی طرح بنگال میں بھی وہ اپنا کوئی خاص اثر دکھانے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوپائی ہے ۔ حالانکہ بنگال میں معمولی باتوں پر اس نے فرقہ پرستانہ ماحول کو بگاڑنے کی کوششیں کی تھیں۔ ہر طرح سے ریاست کی ممتابنرجی حکومت کو الجھن اور پریشانیوں کا شکار کیا گیا ۔چاہے چٹ فنڈ اسکام ہو یا پھر بردوان میں ہوا دھماکہ ہو ۔ کوئی موقع ضائع نہیں کیا گیا جب بنگال حکومت کو نشانہ بنانے کی بی جے پی کی جانبس ے کوششیں نہیں کی گئی ہوں۔ ان کوششوں میں اسے مختلف گوشوں کی تائید و حمایت بھی حاصل رہی ہے لیکن ممتابنرجی نے ان طاقتوں پر پوری طرح سے قابو کیا ہوا ہے ۔ حکومت اور انتظامیہ پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھتے ہوئے انہوں نے فرقہ پرست طاقتوں کو اپنے عزائم میں کامیاب ہونے کا موقع نہیں دیا ہے ۔ اب جبکہ سارے ملک میں لوک سبھا کے انتخابات کا ماحول گرم ہے اور بنگال کی سیاست بھی انتخابی ماحول کے اثر میں ہے بی جے پی اس بات کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح سے ممتابنرجی کے قلعہ میں دراڑ ڈالی جائے اور وہاں بی جے پی کو قدم جمانے کا موقع مل جائے ۔ بنگال میں ممتابنرجی کے 34 سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ یہ کامیابی انہوں نے گذشتہ انتخابات میں اس وقت حاصل کی تھی جب سارے ملک میں مودی کی لہر چل رہی تھی ۔ ممتابنرجی نے مودی لہر کو بنگال میں بالکل بھی چلنے نہیں دیا اور وہ عوام کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔ اس بار بھی بی جے پی ریاست میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے ۔
بی جے پی کی کوششوں کو کوشش کی بجائے ہتھکنڈے قرار دینا زیادہ درست ہوگا کیونکہ بی جے پی کسی سیاسی حکمت عملی کی بجائے اوچھے حربے اختیار کرتے ہوئے اور شخصی تنقیدوں کے ذریعہ بنرجی کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ معمولی سے واقعات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو اور ترنمول کانگریس کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کے تمام تر حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود ممتابنرجی بنگال میں اپنا جادو برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ بی جے پی کی ان کوششوں میں اس کے صدر امیت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کی زیادہ دلچسپی ہے ۔ مودی اور امیت شاہ حکومت کی کامیابیوں یا کارناموں یا بنگال کے عوام کیلئے کئے گئے اقدامات کی بجائے منفی سیاست کے ذریعہ ریاست کی سیاست میں اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں یہ ان کی سوچ ہی ہے جس کی وجہ سے بنگال کے عوام بی جے پی کو قبول کرنے کو تیار نہیںہیں۔ کئی اہم مواقع پر ریاست کے عوام نے بی جے پی اورا س کے قائدین کے ہتھکنڈوں کو مسترد کرتے ہوئے ممتابنرجی کا ساتھ دیا ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست میںممتابنرجی کی گرفت مضبوط ہے اور ریاست کے عوام اپنی فولاح و بہبود کیلئے ان کے اقدامات اور اسکیمات وغیرہ سے مطمئن ہیں۔
ویسے تو ہر جماعت کو اپنے سیاسی عزائم کے ساتھ آگے بڑھنے کاحق حاصل ہرتا ہے اور یہی جمہوریت کا اصول بھی ہے ۔ ہر جماعت رائے دہندوں سے رجوع ہوتے ہوئے اپنے پروگرامس اور اسکیمات کے ذریعہ ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن بی جے پی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ مثبت سیاست کی بجائے منفی سیاست پر یقین رکھتی ہے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں یہ مثالیں موجود ہیں جب بی جے پی نے منفی سیاست کے ذریعہ اپنا مقام بنانے کی کوشش کی تھی ۔ کچھ ریاستوں میں اسے کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے لیکن جہاں تک بنگال کا سوال ہے بی جے پی اپنی تمام ترمنفی کوششوں کے باوجود یہاں اپنا مقام بنانے میں کامیاب نہیں ہوپائی ہے ۔ بی جے پی کو ممتابنرجی کی حکومت اور اس کی پالیسیوں وغیرہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جو ریاست کے عوام پر اپنی گرفت بنائے رکھنے میں کامیاب ہیں۔