بلند و پست کا ہے فرق اپنی نظروں میں
زمیں زمیں ہے اسے آسماں نہیں کہتے
مغربی بنگال میںاچانک ہی سیاست گرما گئی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بنگال میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ممتابنرجی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ انہوں نے حاالیہ مرشد آباد تشدد کے واقعات پر تبصرہ کیا تھا ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایک مرکزی وزیر نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آپریشن سندور کی طرح آپریشن بنگال کیا جائیگا ۔ یہ ایک ایسا ریمارک ہے جس کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک تو آپریشن سندور کا جہاں تک سوال ہے وہ دشمن ملک کے خلاف کیا گیا تھا اور دہشت گردی کے ٹھکانوںکو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ دوسرا بنگال کو بھی دشمن کی سرزمین سمجھتے ہوئے یہ ریمارک کیا گیا جو انتہائی افسوسناک ہے ۔ آپریشن سندور میں سارے ملک نے ایک آواز ہو کر حکومت اور فوجی کارروائی کی تائیدو حمایت کی تھی ۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اقتدار رکھنے والی اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی تھیں۔ یہ ملک کے دشمنوں کے خلاف کی گئی کارروائی تھی اور ہر ایک نے اس کی تائید کرتے ہوئے اپنا قومی فریضہ ادا کیا تھا ۔ تاہم اسی اصطلاح کو ملک کی ایک ریاست کے خلاف استعمال کرنا انتہائی افسوسناک کہا جاسکتا ہے ۔ بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے تو اسے ریاست کے عوام نے اپنے ووٹ سے اقتدار دیا ہے ۔ بنگال کے عوام بھی ہندوستانی ہیں اور انہیں اپنے ووٹ سے کسی کو اقتدار دینا اور کسی کو اپوزیشن میں بٹھانے کا اختیار ہے ۔ اگر وہاں بی جے پی اقتدار پر نہیں ہے تو اس کے تعلق سے مخالفانہ ریمارکس اس نوعیت کے کرنا جس طرح کے دشمن کے خلاف کئے جاتے ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک طرز عمل ہے اور اس طرح کی سیاست انتہائی منفی سیاست ہی کہی جاسکتی ہے ۔ یہ وفاقی طرز حکمرانی والی اور مثبت سوچ والی سیاست نہیں ہوسکتی ۔ خود وزیر اعظم نے حالانکہ اپنی تقریر میں ایسا نہیں کہا لیکن انہوں نے بھی مرشد آباد میں پیش آئے تشدد کے واقعات پر ضرور تبصرہ کیا ہے ۔ بحیثیت ملک کے وزیر اعظم انہیں کسی ریاست میں سیاسی تقریر کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا کیونکہ وہ بشمول مغربی بنگال سارے ملک کے وزیر اعظم ہیں اور سارے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔
چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی نے فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ریاست میں انتخابی بگل بجانے کا بھی اشارہ دیا ہے ۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ ان کی پارٹی ریاست میں کل بھی انتخابات کا سامنا کرنے تیار ہے اور اگر بی جے پی چاہتی ہے تو وہ انتخابات کا اعلان کر دکھائے ۔ ممتابنرجی نے جس طرح کہا کہ وزیر اعظم نے بی جے پی صدر کی طرح سے تقریر کی ہے اور ملک کے وزیر اعظم کی طرح تقریر نہیں کی ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم پر جھوٹ پھیلاتے ہوئے پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی اختیار کرنے کا بھی الزام عائد کیا ہے ۔ اس طرح مغربی بنگال میں سیاست اچانک ہی گرم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے لگاتار مغربی بنگال کے تعلق سے منفی پروپگنڈہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات سے قبل بھی معمولی واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے بی جے پی نے مغربی بنگال میں بھی فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوشش کی تھی ۔ سماج میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر مغربی بنگال میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے ۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات سے قبل بھی اس کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکی تھیں اور اس بار بھی یہ کوششیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ ریاست میں انتظامیہ اور عوام کے موڈ پر چیف منسٹر ممتابنرجی کی خاصی گرفت ہے اوروہ ریاست میں کسی بھی طرح کے سیاسی چیلنج کا سامنا کرنے کی اہل ہیں۔
سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے حکمت عملی بنانا اورا پنے منصوبوں پر عمل کرنا کسی بھی جماعت کا حق ہے اور یہ جمہوری عمل کا حصہ بھی ہے لیکن اس کیلئے کسی ریاست کے تعلق سے انتہائی منفی ریمارکسکرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر ریاست ہندوستان کا حصہ ہے اور ہر ریاست میں اقتدار رکھنے والی جماعتیں بھی ہندوستان کی ہی ہیں۔ سیاسی اختلافات کی بھی ایک حد ہونی چاہئے اور اس حد کو پار نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ملک کے وقار اور اعلی دستوری عہدوں کے وقار کو بھی پامال ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ اس بات کا ملک ی برسر اقتدار جماعت کو بطور خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔