وضعداری تو ہم سے چھوٹی نہیں
بس ہر اک سے نباہ نے مارا
مغربی بنگال ملک میں سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاستوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ بی جے پی ساری طاقت جھونکتے ہوئے وہاں اقتدار حاصل کرنا چاہتی تھی تاہم ترنمول کانگریس اور ممتنبنرجی نے اسے ناکام بنادیا اور لگاتار تیسری معیاد کیلئے وہ چیف منسٹر بنیں۔ اب جبکہ پارلیمانی انتخابات کا عمل اپنے اختتامی مراحل میں آ رہا ہے بنگال کی سیاست میں کانگریس اور ترنمول کانگریس میں لفظی تکرار شروع ہوگئی ہے ۔ ممتابنرجی مختلف مراحل پر مختلف بیان بازیاں کرنے میں شہرت رکھتی ہیں۔ وہ بنگال کی سیاست پر اچھی گرفت بھی رکھتی ہیں اور وہاں وہ لگاتار تیسری معیاد کیلئے چیف منسٹر ہیں۔ جب ملک میں انڈیا اتحاد کے تحت مختلف جماعتوں میں نشستوں کی تقسیم ہوئی تو ممتابنرجی نے اس سے دوری اختیار کی ۔ بنگال میں ان کا کمیونسٹ جماعتوں اور کانگریس کے ساتھ اتفاق رائے نہیںہوسکا ۔ اس صورتحال میں ممتابنرجی نے تنہا مقابلہ کا فیصلہ کیا تھا ۔ انہوں نے اپنے کٹر ناقد سمجھے جانے والے کانگریس لیڈر آدھیر رنجن چودھری کے خلاف کرکٹر یوسف پٹھان کو میدان میں اتار دیا ہے ۔ اس طرح انہوں نے کانگریس کے تعلق سے کسی نرم گوشہ کا اظہار بھی نہیں کیا تھا ۔ حالانکہ کانگریس پارٹی نے حکمت عملی کے تحت بنگال میں ممتابنرجی کے خلاف بیان بازیاں نہیں کی ہیں اور بڑے قائدین کی جانب سے ممتابنرجی کے تعلق سے نرم گوشہ ہی ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن آدھیر رنجن چودھری ریاستی سطح پر ممتابنرجی اور ترنمول کانگریس کو لگاتار تنقیدوں کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ یہ بات فطری بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ ممتابنرجی نے ان ہی تنقیدوں کی وجہ سے چودھری کے خلاف ایک طاقتور اور عوامی چہرے کو میدان میں اتارا ہے ۔ تاہم دونوں جمعاتوں کے مابین جس طرح کی بیان بازی ہو رہی ہے اس کو میڈیا میں الگ ڈھنگ سے پیش کرتے ہوئے انڈیا اتحاد میںاختلافات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ انڈیا اتحاد کے تعلق سے ممتابنرجی نے نہ دوری اختیار کی ہے اور نہ ہی عملا اس کا حصہ بنی ہیں۔ تاہم وہ بھی اس مسئلہ پر وقفہ وقفہ سے بیان بازیاں کرتے ہوئے صورتحال کا استحصال کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہیں ۔
حالانکہ ملک میں لوک سبھا نشستوں کی ایک بڑی اور خاطر خواہ تعداد کیلئے رائے دہی ہوچکی ہے تاہم جتنی نشستیں باقی بھی ہیں ان کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ ایسے میں جب کانگریس اور ترنمول کانگریس کے مابین لفظی تکرار ہو رہی ہے تو اس کو سیاسی فائدہ کیلئے کئی گوشوں کی جانب سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی اس کا فائدہ اٹھانے جہاں کوشاں ہے وہیں میڈیا بی جے پی کی اس کوشش کو مزید شدت سے آگے بڑھانے میں مصروف ہے ۔ ممتابنرجی نے چند دن قبل بیان دیا تھا کہ وہ انتخابات کے بعد مرکز میں انڈیا اتحاد کی حکومت کو بیرونی تائید فراہم کریں گی ۔ اس بیان کو بھی الگ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اب جبکہ ممتابنرجی نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ انڈیا اتحاد کا حصہ ہیں تو آدھیر رنجن چودھری عوام پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ممتابنرجی پر بھروسہ نہ کریں کیونکہ وہ صرف قومی سیاست میں اپنی اہمیت کو برقرار رکھنے انڈیا اتحاد میں برقراری کا اعلان کر رہی ہیں۔ یہ ایسی صورتحال سے جس سے دونوں ہی جماعتوں اور ان کے قائدین کو گریز کرنے کی ضـرورت ہے ۔ اس سے دوسروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ انڈیا اتحاد اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کیلئے ایک ایک نشست اہمیت کی حامل ہے اور بی جے پی کو شکست دینے کیلئے سبھی جماعتوں کا ایک رائے ہونا اور متحد ہونا ضروری ہے ۔ تا حال چار مراحل کی رائے دہی انڈیا اتحاد کیلئے حوصلہ افزاء کہی جا رہی ہے اور اسی رجحان کو برقرار رکھنے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔
یہ فطری بات ہے کہ انتخابات کے دوران دوست اور حلیف جماعتوں میں بھی اختلاف ہوجاتا ہے اور اس کا سر عام اظہار بھی ہوتا ہے ۔ ایک ہی پارٹی کے مختلف قائدین کی رائے بھی مختلف ہوسکتی ہے ۔ یہ جمہوری عمل کی انفرادیت ہے ۔ تاہم موجودہ صورتحال میں کانگریس ہو یا ترنمول کانگریس ہو یا پھر دوسری ریاستی جماعتیں ہوں سبھی کو انتخابات کے آخری مراحل میں اپنے اتحاد کو مزید مستحکم انداز میں عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام میں اتحاد کا جو مثبت پیام دیا گیا ہے اس کو برقرار رکھتے ہوئے بی جے پی کو شکست دینے کی سمت مزید بہتر انداز میں پیشرفت ہوسکتی ہے اور ایسا کیا جانا چاہئے ۔