بنگال میں گھر واپسی

   

Ferty9 Clinic

ساتھ جب دے نہ سکی اپنی شکستہ پائی
ایک منزل سے چلے دوسری منزل سے ملے
مغربی بنگال میںایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی سبھی تدبیریںالٹی پڑ رہی ہیں۔ بی جے پی نے ریاست میں ممتابنرجی حکومت کو اقتدارسے بیدخل کرنے اوراپنی حکومت قائم کرنے کی جو جو کوشش کی تھی وہ سب کی سب ناکام ہوگئیں۔ بی جے پی نے ساری طاقت جھونک کر مقابلہ کیا تھا ۔ دولت کا بے دریغ استعمال کیا گیا تھا ۔ گورنر بھی مسلسل ریاستی حکومت کے خلاف بالواسطہ مہم چلا رہے تھے ۔ ایسے ریمارکس کر رہے تھے جن کی دوسری ریاستوںمیں کسی گورنر کی مثال نہیں ملتی ۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے ریاست کے کئی دورے کئے ۔ بے شمار ریلیوںسے خطاب کیا ۔ ترنمول کے کئی قائدین کو انحراف کیلئے اکساتے ہوئے اپنی پارٹی میں شامل کرنے کا سلسلہ دو برس قبل سے ہی شروع کردیا گیا تھا ۔ شاردا اسکام کے نام پر الگ سے قائدین کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ جو قائدین اس سے خوفزدہ ہوگئے تھے وہ بی جے پی میںشامل ہوگئے تھے ۔ جولوگ خوفزدہ نہیںہوئے انہیںکئی طرح کے لالچ دئے گئے تھے ۔ انتخابی مہم کے دوران سینکڑوں قائدین نے بنگال کا رخ کیا تھا ۔ کئی چیف منسٹرس ‘ مرکزی وزراء اور دوسروں نے انتخابی مہم کو ایک ذمہ داری کے طور پر نبھایا تھا ۔ ان سب کے باوجود بی جے پی ریاست میںکامیابی حاصل نہیںکرسکی ۔ ممتابنرجی نے شاندار کامیابی درج کی تھی ۔ ممتا بنرجی کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا ۔ ہاں یہ ضرور ہوا تھا کہ بی جے پی نے کانگریس اور کمیونسٹ جماعتوںکے ووٹ بینک پر قبضہ کرلیا تھا ۔ تاہم انتخابات میں ناکامی کے بعد بھی بی جے پی کیلئے صورتحال مشکل ہی ہوتی جا رہی ہے ۔ سب سے پہلے تو ریاست میں قد آور سمجھے جانے والے لیڈر مکل رائے نے بی جے پی سے دوری اختیار کرتے ہوئے ترنمول کانگریس میں واپسی اختیار کرلی تھی ۔ اب ایک بار پھر ریاست میں کئی قائدین کی گھر واپسی کا سلسلہ چل پڑا ہے ۔ کل اور آج میں دو ارکان اسمبلی نے ترنمول کانگریس سے رابطہ بحال کرلیا ہے اور بی جے پی سے ترک تعلق کرلیا ہے ۔ جو دعوے کئے جا رہے ہیں ان کے مطابق کئی اور قائدین بھی جلد یا بدیر بی جے پی کو چھوڑ کر پھر ترنمول میںشامل ہوسکتے ہیں۔
ان قائدین کی یہ گھر واپسی فطری عمل کہا جاسکتا ہے کیونکہ بی جے پی نے ان قائدین کو یا تو دھمکاتے ہوئے یا پھر لالچ دیتے ہوئے اپنی صفوںمیں شامل کیا تھا ۔ نظریاتی طور پر یہ قائدین کبھی بی جے پی سے متفق شائد نہیں رہے تھے ۔ انہیںاقتدار کا لالچ بھی رہا ہوگا ۔ ان طریقوںسے شامل کئے جانے والے قائدین کبھی بھی اپنے مفادات پر کوئی آنچ نہیںآنے دیتے ۔ بی جے پی کو غیر اخلاقی طرز کی سیاست کا خمیازہ کم ازکم بنگال میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ جہاں اس نے کئی قائدین کو دوسری جماعتوںسے لا کر اپنی صفوںمیںشامل کیا تھا وہیں اب یہ قائدین بی جے پی کو اقتدار نہ ملنے پر اس سے کنارہ کشی کر رہے ہیں۔ ویسے تو بی جے پی نے ملک کی کئی ریاستوںمیں اپوزیشن جماعتوں میں اس طرح کے انحراف کی حوصلہ افزائی کی ہے اور دوسری جماعتوںکے قائدین کو شامل کیا ہے لیکن وہاں بی جے پی کسی طرح اقتدار حاصل کرنے میںکامیاب ہوگئی تھی اس لئے یہ قائدین ابھی تک بی جے پی میں برقرار ہیں۔ جو روایت اپوزیشن میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرنے کی بی جے پی نے فروغ دی ہے ویسی کبھی دیکھی نہیں گئی ۔ ویسے تو ماضی میں بھی کئی ارکان پارلیمنٹ اور اسمبلی نے اپنی جماعتوںسے انحراف کیا ہے لیکن اس کو باضابطہ شکل صرف بی جے پی نے دی ہے ۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں کرناٹک اور مدھیہ پردیش تازہ ترین مثالیں ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال کا بی جے پی کو اب بنگال میں سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
اب تک مغربی بنگال میں بی جے پی سے ترک تعلق کرکے جو قائدین بی جے پی میںشامل ہوئے ہیں ان میںمکل رائے اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ قد آور سیاسی لیڈر سمجھے جاتے ہیں اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ان کی وجہ سے ترنمول کانگریس کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔ جو ارکان اسمبلی اب بی جے پی سے ترنمول میںشامل ہو رہے ہیں ان کی شمولیت سے بھی انتخابات پر اثر ہوسکتا ہے ۔ ممتابنرجی ایسا لگتا ہے کہ 2019 کی صورتحال کا اعادہ ہونے کا موقع دینا نہیںچاہتیں اسی لئے وہ ابھی سے پارٹی کو مستحکم کرنے کی کوششوںمیںجٹ گئی ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ممتابنرجی کی یہ حکمت عملی بی جے پی کیلئے آئندہ عام انتخابات میں مشکلات کا باعث ہوسکتی ہے ۔