کہتے ہیں ہم کو ہوش نہیں اضطراب میں
سارے گِلے تمام ہوئے اک جواب میں
مغربی بنگال میں آ:ندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ حالیہ منعقدہ بہار اسمبلی انتخابات کی جو اہمیت تھی اتنی ہی اہمیت مغربی بنگال میں ہونے والے انتخابات کی ہے ۔ ریاست میں ممتابنرجی گذشتہ تین معیادوں سے لگاتار چیف منسٹر ہیں۔ وہ مسلسل چوتھی معیاد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ بی جے پی کی جانب سے انہیں اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے خود اقتدار حااصل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی اس کی تیاریوں کا پہلے ہی آغاز کرچکی ہے ۔ اس نے بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کی شاندار کامیابی کے بعد اعلان بھی کردیا ہے کہ اس کا اگلا نشانہ مغڑبی بنگال ہی ہوگا ۔ بی جے پی یہ دعوی کر رہی ہے کہ وہ اس بار ممتابنرجی کو اقتدار سے بیدخل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ ممتابنرجی بھی ابھی سے سرگرم ہو کر پارٹی کو مستحکم رکھنے اور عوامی تائید برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ ایسے میں کچھ عناصر ہیں جو راست یا بالواسطہ طور پر بی جے پی کے منصوبوںکو پورا کرنے میں اپنے اقدامات سے مدد کر رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے اور عوامی جذبات کو مشتعل کرنے والے اقدامات اور بیان بازیاں کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں رہ گیا ہے کہ اپنے معمولی سے سیاسی مفادات کیلئے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا ریاست کے مفاد میں نہیں ہے اور اس کے ذریعہ سے بی جے پی کو اپنے منصوبوںکو پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ بی جے پی چاہتی بھی یہی ہے کہ مختلف گوشوں سے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جائے اور پھر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہوئے وہ خود بھی اس کا استحصال کرسکے اور انتخابات میں فائدہ حاصل کرسکے ۔ خود بی جے پی کی جانب سے ہر مسئلہ کو مذہبی رنگ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے اور وہ کھلے عام فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے ۔ ساتھ ہی ادنی سے سیاسی مفادات کیلئے کچھ قائدین اس کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ یہ عناصر حالانکہ بی جے پی مخالف موقف کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کے اقدامات اور ان کی بیان بازیاں اور ان کے منصوبوںسے بی جے پی کو بالواسطہ طور پر سیاسی فائدہ ہوتا ہے اور اس بات سے یہ عناصر بخوبی واقف ہیں۔
بنگال میں بابری مسجد مسئلہ کو زندہ رکھا جا رہا ہے ۔ یہ مسئلہ قانونی طور پر اپنے منطقی انجام تک پہونچ چکا ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے اراضی مندر کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا ۔ اراضی حوالے کردی گئی ۔ وہاں ایک رام مندر بھی تعمیر ہوگیا ۔ اس کا افتتاح ہوچکا ہے اور وہاں مذہبی رسوم کی دائیگی ہو رہی ہے ۔ اس کے باوجود محض سیاسی مفادات کیلئے بابری مسجد کے مسئلہ کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس سے مسلمانوں کا کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ اس کے نتیجہ میں صرف بی جے پی کو فائدہ ہوسکتا ہے اور بی جے پی یہی کچھ چاہتی بھی ہے ۔ ترنمول کانگریس کی جانب سے ہر سال 6 ڈسمبر کو بابری مسجد کی شہادت کے دن اظہار یگانگت ریلی کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یہ روایت برسوںسے چلی آ رہی ہے ۔ بلکہ جس وقت بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے آئندہ برس سے یہ ریلی نکالی جا رہی ہے ۔ بی جے پی اس پر اب چراغ پا ہونے لگی ہے اور اس پر اعتراض کرتے ہوئے ہندو ۔ مسلم جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے ۔ بنگال کی سیاست کو بھی مسائل کی بنیاد سے ہٹاکر مذہبی جذبات تک سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ عوامی اشتعال کا استحصال ممکن ہوسکے ۔ کچھ اور عناصر ہیں جو اس مسئلہ کو مزید ہوا دینے کی کشش کر رہے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد صرف اپنے سیاسی فائدہ کی تکمیل کرنا ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں بی جے پی سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ اس حقیقت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جب کہ سب سے زیادہ اسی مسئلہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے پوری بصیرت سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
مغربی بنگال ملک کی بڑی ریاستوں میںسے ایک ہے اور یہی وہ ریاست ہے جس نے بی جے پی کو وہاں ابھی تک پوری طرح سے اپنے قدم جمانے کا موقع نہیں دیا ہے ۔ ممتابنرجی پوری شدت کے ساتھ بنگال میں بی جے پی کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ دوسری جو اپوزیشن جماعتیں ہیں وہ بی جے پی سے مقابلہ میں کمزور پڑی ہیں۔ ایسے میں نہ صرفسیاسی جماعتوںاور قائدین کو بلکہ تمام سکیولر گوشوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ریاست کے ماحول کوفرقہ پرستی کا شکار ہونے کا موقع فراہم نہ کریں۔ سیاسی بصیرت سے کام کریں اور بی جے پی کے منصوبوںکی تکمیل میں مدد کرنے کی بجائے ان کو ناکام بنانے کی حکمت عملی اختیار کریں۔
غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں
غزہ میں بظاہر تو جنگ بندی نافذ ہے لیکن اسرئیل کی جانبسے جب چاہے اور جس طرح چاہے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ کسی بھی مقام پر کسی بھی وقت بمباری کرنا اور فضائی حملے کرنا اس کیلئے کوئی مسئلہ نہیں رہ گیا ہے اور وہ جنگ بندی کی پابندی کرنے کو تیار نہیں ہے اور لگاتار خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ امریکہ اور دوسرے کئی ممالک نے غزہ میں جنگ بندی کا جشن منایا تھا ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا سہرا اپنے سر باندھنے سے گریز نہیں کیا تھا ۔ واہ واہی بٹوری تھی ۔ تاہم صورتحال یکسر مختلف ہے اور لگاتار حملے کرتے ہوئے اسرائیل اب بھی نہتے فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف ہے ۔ اس جانب امریکہ کے بشمول کوئی بھی ملک توجہ دینے کو تیار نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقہ کے عرب ممالک یہاں کی صورتحال کے تعلق سے دنیا کی توجہ مبذول کروائیں۔ امریکہ پر اثر انداز ہوں کہ وہ اسرائیل پر لگام کسے اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ روکا جائے ۔ صرف کاغذ پر جنگ بندی ک اکوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ۔