بنگلور کاپوٹا۔ دکنی اُردو کلاکار نے اپنا پہلا رایپ البم ریلیز کیا

,

   

دکنی کو اُردو کی بولی کہنے والوں کے ساتھ بحث سے تنگ آکر پاشاہ کا اب کہنا ہے کہ وہ وہ اپنے گیت صرف اپنے لئے ہی لکھ لیتے ہیں۔
حیدرآباد۔ حیدرآبادکے ریپر23سالہ محمد عفان عرف پاشاہ بھائی نے جب 2020میں ایک پہلا واحد”عیدکا چاند‘‘ میوزیک جاری کیاتھا انہیں خوب شہرت ملی تھی۔ بنگلورو کے نیلا ساندرا علاقے کے رہنے والے ہپ ہاپ آرٹسٹ دکنی گانے خود لکھتے اور گاتے ہیں‘ جس زبان میں وہ بولتے ہیں (زیادہ تر دوسروں کی طرح‘خاص طور پر مسلمانوں کی طرح‘ جنوبی ہندوستان میں کی جاتی ہے)۔

پاشاہ کا پہلا واحد ”عید کا چاند“ خصوصی تھا کیونکہ یہ اس کے گردو نواح میں استعمال کی جانے والی بیشتر لوگوں کی زبان میں تھا جس کو خاص طور سے دکنی زبان کے استعمال کی اصطلاح کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اپنا دکنی میوزیک ریلز کرنے کے ایک سال بعد عفان نے پچھلے ہفتہ اپنا پہلا میوزک البم ”بنگلور کا پوٹا“ ریلیز کیاہے۔ دکن کے علاقوں او ربنگلورو میں اس البم کی ریلیز کافی اہم ہے‘ کیونکہ دکن کے شہرو ں میں استعمال ہونے والی یہ زبان(جس کو اُردو نہیں بولا جاتا ہے) اس میں یہ پہلا مکمل البم ہے۔

دکنی کے ساتھ غلط تصور یہ ہے کہ یہ اُردو ہے (یا بنگلور اُردو‘ حیدرآباد اُردو یا ہندی) ہے خصوصیت کے ساتھ دکن اور جنوبی ہندوستان بالخصوص مسلمانوں میں بولی جاتی ہے۔ تاریخی وجوہات کی بنا پر یہ تحریر میں آبا بند ہوگئی مگر چار صدیوں تک (اُردو کے علاوہ18ویں صدی میں ترقی پذیر اورقائم ہوئی)بولی جانے والی زبان رہی ہے۔

محمد عرفان عرف پاشاہ اور ان کی ٹیم کا مذکورہ ”بنگلورکا پوٹا“ حقیقت میں جو غلط وہ بحث جو بار بار دہرائی جاتی ہے کہ دراصل دکنی زبان اُردو ہے اس بحث کو اس البم سے مزید ہوا مل سکتی ہے۔

عفان کے ساتھ ان کے ریپر ساتھی ڈیکمس‘ ماروان‘ سرکل ٹون (میکسنگ)‘ ماناس شرما اور دیگر نے اس البم کی تیاری میں مدد کی ہے۔ خود اُردو سے پرانی ہونے کی وجہہ سے دکنی‘ دوصدیوں میں ادبی زوال کے باوجود پورے دکن او رجنوبی ہندوستان میں بولی جانے والی زبان ہے۔

حیدرآباد‘ اورنگ آباد‘ بیدر‘ گلبرگہ جیسے شہروں میں بڑے پیمانے پر یہ بولی جاتی ہے اور بنگلور‘ چینائی‘ گنٹور جیسے مقامات پر خاص طور سے مسلمانو ں کی مادری زبان ہے


دکنی کے مجوزہ ہپ ہاپ گانے
نیاالبم سے قبل عفان نے اپنے نام ”پاشاہ بھائی“ کا پر مشتمل ایک گانا بھی یوٹیوب پر کچھ ماہ قبل ریلیزکیاتھا۔ مذکورہ گیت ان کی زندگی پر کافی اہمیت رکھتا تھا۔ بنگلور کے کسی خوبصورت علاقے کے بجائے نیلا سندرا کی پچھلی گلیوں میں اپنی ہی لوگوں کے ساتھ ریپ کرتے ہوئے نظر ائے ہیں۔

اسی سال میں ریلیز ہونے والے عفان کے البم”بنگلورو کا پوٹا“ انڈین فاؤنڈیشن فار دی آرٹس(ائی ایف ایف اے) کے ذریعہ ایک گرنٹ کی مدد سے تیار کیاگیاہے۔

بنگلورومیں دکنی حیدرآباد اورجنو ب کے دیگر حصوں سے تھوڑی مختلف ہے۔ لہجہ اور تلفظ پاشاہ کے ان گانوں میں کافی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے

YouTube video

دوسرے ریپ گانوں میں ہمارے سماجی ماحول کا احاطہ کیاگیاہے‘ شاعرانہ انداز‘شہر کی خصوصیت جہاں پر ان کی پرورش ہوئی ہے‘ ائی ٹی ہب کے باوجود ایک مختلف خیال کی پیشکش۔

عفان کابوکا پھوڈ بھی ان کے ون اینڈ (رات میں اٹوڈرائیور کے وصول کئے جانے والے کرایہ ون اینڈ ہاف کے لئے پیش کی جانے والی اصطلاح)ہاف پکارے جانیو الے گروپ کا ایک بڑا حصہ ہے‘ جس میں (نہ صرف دکنی زبان کا استعمال کرنے والے) بلکہ دوسری ریپرس کا بھی شامل کیاگیاہے۔

عفان عرف پاشاہ نے کہاکہ ”میں نے خود2017میں بنگلورکی داستان تحریر کی‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب دکنی زبان بھی بولی جاتی ہے اس کی مجھے جانکاری نہیں تھی۔ میں کچھ لکھنا چاہتاہوں مگر وہ کبھی پورا نہیں ہوا ہے‘ چاہے وہ میری کہانی ہو یاپھر کچھ اور۔

گیت تو پورا ہوگیا ہے مگر اس میں ابھی بہت کچھ باقی ہے جو نہیں ہوا ہے۔ عید کا چند محض چند دنوں میں پورا ہوا ہے“۔

جبکہ حیدرآباد میں کچھ نوجوان جیسے روحان ارشد اپنے گانے (جیسے میاں بھائی) تشکیل دئے ہیں جس کے متعلق کچھ کا کہناہے کہ دکنی میں ہپ ہاپ بنانے کی کوشش ہے‘ تاہم اس میں کچھ فرق ہے۔ پاشاہ کاکام بیشتر سماجی اصلاحات پرہے۔

دکنی کو اُردو کی بولی کہنے والوں کے ساتھ بحث سے تنگ آکر پاشاہ کا اب کہنا ہے کہ وہ وہ اپنے گیت صرف اپنے لئے ہی لکھ لیتے ہیں۔]

YouTube video

حیدرآباد اوردکن میں یہ زبان دکنی بولی جاتی ہے‘ ہمیشہ سے ہی معتبر ادبی کاموں سے جڑی رہی ہے جو پندرویں صدی کے وسط میں بیدر کی مقامی زبان کے طور پر منظرعام میں ائی تھی۔

جبکہ جنوبی ہندوستان میں آج کی تاریخ میں بھی یہ بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے مگر دیگرجدید وسطی اورپاپ کلچر کا حصہ نہیں بنی ہے۔

دکنی کی تشکیل کے لئے (مراہٹی(کنڈا‘ تلگو) او ردیگر علاقائی زبانوں سے درآ مد ہوکر کئے کو‘ نکو‘ مانجھے‘ حولہ‘ وغیرہ جیسے الفاظ رونما ہوئے ہیں


دکنی کازوال
چونکہ اُردو کو تعلیم کی بنیادی ذریعہ استعمال کیاجاتا تھا‘ اشرفیہ نے اسے اپنا لیا۔تاہم عام عوام‘ خاص طو رپر شہری مراکزسے باہر‘ اپنی بولی جانے والی زبا ن دکنی پر قائم رہے۔

اس لیے جنوب کے کچھ حصوں جیسے آندھرا پردیش کے گنٹوریا پرکاشم میں‘ مسلمان دکھنی میں بولتے ہیں لیکن شعور کی کمی کی وجہہ سے اُردو کہتے ہیں۔

یہاں تک کہ اگر کوئی یہ استدلال کرتا ہے کہ یہ حقیقتمیں اُردوہے‘ بولے جانے والے الفاظ مقامی اُردوبولنے والو ں کے سر چڑھ کر بولتے ہیں۔آج خاص طور سے انسٹاگرام پر بہت سے مواد تخلیق کار موجود ہیں جو پہلے ہی اسکو اُردو کے بجائے دکنی کی اصطلاح کا استعمال کیاہے۔

ایسے مشہور سوشیل میڈیاتخلیق کاروں میں ردا تھرانہ‘ زوبا صنوفر‘دانش کے بشمول دیگر ان میں قابل ذکر ہیں۔