بنگلہ دیش انتخابات میں دھاندلیاں، صحافت محتاط

   

واشنگٹن 13 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات کے تناظر میں، حزب مخالف اور جمہوریت نواز سرگرم کارکنوں نے ووٹنگ میں مبینہ دھاندلی پر اظہار مایوسی کیا ہے، جن رپورٹوں کے بارے میں مقامی ذرائع ابلاغ نے زیادہ صرف نظر کیا ہے۔ لیکن، متعدد صحافی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کے کئی ادارے مبینہ دھاندلی کے بارے میں خبریں شائع کرنے سے اس لئے احتراز کرتے ہیں، چونکہ اْنھیں حکومت کی جانب سے سخت نتائج کا خوف ہے۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سینئر جوائنٹ سکریٹری، روحل الکبیر رضوی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’30 دسمبر کے عام انتخابات کے دوران ووٹوں کی چوری اس سطح کا معاملہ ہے کہ عالمی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی کرنے سے پہلے، حکومت نے چند کالے قوانین نافذ کرائے، جیسا کہ ’ڈجیٹل سکیورٹی ایکٹ‘، تاکہ ذرائع ابلاغ کو قابو کیا جائے‘‘۔اْنھوں نے کہا کہ ’’مختلف طریقوں سے حکومت نے ملکی ذرائع ابلاغ کے اداروں کو دھمکی دی کہ وہ آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے سے گریز کریں اور بڑے پیمانے پر ووٹنگ میں دھاندلی کی خبریں دے کر جگ ہنسائی نہ کرائیں‘‘۔ ڈھاکہ میں قائم ایک قومی ٹیلی ویڑن چینل کے نیوز پروڈیوسر نے کہا کہ انتخابات کے دوران میڈیا کے کئی ادارے آزادی سے کام کرنے سے محروم رہے۔ڈھاکہ ہی سے کام کرنے والے قومی ٹیلی ویڑن چینل کیایک نیوز پروڈیوسر نے، حکومت کے ہاتھوں سخت نتائج بھگتنے کے ڈر سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر، بتایا کہ ’’عام انتخابات سے قبل انتخابی کمیشن نے نئی ہدایات جاری کیں ، جن میں پولنگ سے متعلق خبریں دینے کے کام کو محدود کیا گیا۔ پہلی بار کیے گئے اس اقدام کے ذریعے ووٹنگ مراکز کے اندر پولنگ سے متعلق سرگرمیوں کی فوٹوگرافی، وڈیوگرافی یا براہ راست ٹیلی کاسٹ پر بندش عائد کی گئی‘‘۔بقول اْن کے ’’صحافیوں کو واضح انتباہ موصول ہوا کہ ہدایات کی پاسداری نہ کرنے کی صورت میں حکومت سخت کارروائی کر سکتی ہے۔ ایسی خوفناک صورت حال میں دھاندلی سے متعلق اطلاعات پر مبنی زیادہ تر رپورٹیں نہیں دی گئیں‘‘۔ دیگر صحافیوں نے بھی ’وائس آف امریکہ‘ کو اسی قسم کی رپورٹیں دیں۔ لیکن، وہ اپنا نام ظاہر کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اس لئے کہ بقول اْن کے، حکومت ان کے خلاف سخت کارروائی کرسکتی ہے۔