بنگلہ دیش ‘ شیخ حسینہ کا فرار

   

ہوائے شہر اُڑا لے گئی ہے سچائی
دروغ کی ہے یہاں آج کارفرمائی
بنگلہ دیش میں جاری تشدد کے بعد وزیر اعظم کی حیثیت سے شیخ حسینہ نے نہ صرف استعفی پیش کردیا بلکہ وہ ملک سے فرار ہوگئیں۔ کہا جاتا ہے کہ کہیں بھی کسی کا بھی اقتدار مستقل نہیں ہوتا اور اس پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ۔ شیخ حسینہ کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ انہوں نے کچھ وقت پہلے ہی بنگلہ دیش میں انتخابات کے ذریعہ کامیابی حاصل کی تھی ۔ حالانکہ اپوزیشن جماعتیں ان انتخابات میںشامل نہیں تھیں لیکن دنیا دکھاوے کیلئے انتخابات کروائے گئے اور شیخ حسینہ نے ان میں شاندار کامیابی حاصل کرلی تھی ۔ سب کچھ ٹھیک ہی چل رہا تھا ۔ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش میں کامل اقتدار حاصل تھا ۔ اپوزیشن کا کوئی سیاسی وجود نہیں رہ گیا تھا ۔ شائد اسی زعم میںشیخ حسینہ نے اچانک ہی ایسا فیصلہ کیا جس کے نتیجہ میں وہ کچھ ہوگیا جس کا کچھ وقت پہلے تک وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ بنگلہ دیش میں عوام ان کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے اور انہوں نے جو احتجاج شروع کیا تو پھر شیخ حسینہ کو نہ صرف وزارت عظمی سے مستعفی ہونا پڑا بلکہ وہ ملک سے فرار ہوگئیں۔ وہ بنگلہ دیش سے روانہ ہونے کے بعد دہلی کے قریب ہنڈن ہوائی پٹی پہونچیں۔ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست کی ہے اور وہ کسی بھی وقت لندن کیلئے پرواز کرسکتی ہیں۔ چند دن قبل تک وہ وقت تھا کہ بنگلہ دیش میں کوئی ان کے خلاف آواز اٹھانے والا نہیں تھا ۔ وہ کسی کو بھی بنگلہ دیش سے نکال باہر کرسکتی تھیں اور کسی کا بھی داخلہ ملک میں روک سکتی تھیں۔ تاہم اب یہ صورتحال ہوگئی کہ انہیں خود بنگلہ دیش سے فرار اختیار کرنی پڑی اور وہ برطانیہ میں سیاسی پناہ کی طلبگار ہوگئیں۔ وقت بدلنے کی یہ ایک تازہ ترین مثال کہی جاسکتی ہے اور دنیا کو اس تبدیلی سے یہ پیام مل رہا ہے کہ اقتدار کسی کیلئے بھی دائمی نہیں ہوسکتا ۔ اس پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جانا چاہئے اور اس کے نشہ میں ایسے کام نہیں کئے جانے چاہئیں جن کی وجہ سے خود اپنا مستقبل اور زندگی دونوں ہی داؤ پر لگ جائیں۔ بنگلہ دیش میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ وہاں طلبا برادری سڑکوں پر اتر آئی ہے اور اسی کی طاقت نے حالات تبدیل کئے ہیں۔
شیخ حسینہ نے 1996-2001 میں وزارت عظمی کی ذمہ داری سنبھالی تھی ۔ پھر وہ 2009 میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بنیںا ور ابھی تک ان کا اقتدار برقرار تھا ۔ انہوں نے اقتدار پر رہتے ہوئے اپوزیشن کا صفایا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ انہوں نے لگاتار اپوزیشن قائدین کو نشانہ بنایا ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ۔ انہیں جیل بھیجا گیا ۔ انتخابات کیلئے ایسا کچھ ماحول تیار کیا گیا کہ اپوزیشن جماعتیں خود انتخابی مقابلہ سے دور ہوگئیں ۔ سیاسی مخالفت ہر ملک میں عام ہوتی ہے اور یہی جمہوریت کا امتیاز ہوتا ہے ۔ جمہوریت کو ترقی دینا ہے اور مستحکم کرنا ہے تو پھر مخالفانہ آوازوں کی گنجائش بھی رکھنی پڑتی ہے ۔ اس کے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ شیخ حسینہ نے سیاسی مخالفین کا عرصہ حیات تنگ کیا تھا اور ان کا ایک فیصلہ پھر ایسے کچھ حالات کا موجب بن گیا جس میں انہیں خود اپنی جان بچا کر ملک سے فرار اختیار کرنی پڑی ۔ ملازمتوں میں سابق فوجیوں کے افراد خاندان کیلئے 30 فیصد کوٹہ کے مسئلہ پر طلبا اور نوجوانوں نے احتجاج شروع کیا تھا ۔ سینکڑوں افراد اس میں ہلاک ہوگئے ۔ اس احتجاج کو جہاں فوج اور پولیس کی مدد سے کچلنے کی کوشش کی گئی وہیں شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کی طلبا تنظیم کو بھی سڑکوں پر اتار کر جوابی احتجاج کروایا گیا ۔ یہ روش جمہوریت کیلئے ٹھیک نہیں تھی ۔ طلبا اور نوجوان بھی بنگلہ دیش کا ہی حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اور ان کی تشویش کو دور کرتے ہوئے مسئلہ کی یکسوئی کی جانی چاہئے تھی ۔
حالانکہ بنگلہ دیش کی عدالت نے حکومت کے اس فیصلے پر التواء جاری کردیا تھا لیکن حکومت کے منصوبوں پر نوجوانوں کو تشویش تھی ۔ دو دن قبل سے دوبارہ احتجاج شروع کردیا گیا تھا اور یہ پر تشدد موڑ اختیار کرگیا تھا ۔ اتوار کو محض ایک دن میں احتجاج کے دوران ہوئے تشدد کی وجہ سے 100 جانیں تلف ہوگئی تھیں۔ آج صبح بھی تشدد ہوا اور اموات کی تعداد 300 کو پار کر گئی ۔ بالآخر فوج کو مداخلت کرنی پڑی ۔فوج اب وہاں عبوری حکومت قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ جو بھی حکومت تشکیل پائے گی اسے ملک کے داخلی حالات کو جلد قابو میں کرنے اور تشدد اور انسانی جانوں کے اتلاف کو روکنے اور نوجوانوں کا اعتماد بحال کرنے پر توجہ دینا ہوگا ۔