بنگلہ دیش میں طلباء کا احتجاج

   

ہم لوگ ہیں ایسے دیوانے دنیا کو جُھکاکر مانیں گے
منزل کی دُھن میں آئے ہیں، منزل کو پاکر مانیں گے
پڑوسی ملک بنگلہ دیش میںصورتحال مسلسل ابتر ہوتی جار ہی ہے ۔ وہاں طلبا برادری کی جانب سے حکومت کے معلنہ تحفظات سسٹم کے خلافیہ احتجاج کیا جا رہا ہے اور یہ احتجاج تشدد کی شکل بھی اختیار کرگیا ہے ۔ اس احتجاج کے نتیجہ میںہندوستانی طلبا جو بنگلہ دیشکی جامعات میں زیر تعلیم ہیں وہ وطن واپس ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ اب تک تقریبا ایک ہزار طلبا کی ہندوستان واپسی ہوچکی ہے اور مزید چار ہزار طلبا ایسے ہیں جو بنگلہ دیش میںپ ھنسیہوئے ہیں۔ وہاں کئی شہروںمیںکرفیو نافذکردیا گیا ہے ۔ پولیس دستے صورتحال پر قابو پانے میںناکام ہیںاور کچھ مقامات پر فوج کو بھی متعین کردیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود تشدد کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایک سو سے زائد اموات پیش آچکی ہیںاور زخمیوںکی تعداد الگ سے ہے ۔ صورتحال حکام کے بھی قابو میںآ نہیں پا رہی ہے ۔ بحیثیت مجموعی حالات تشویشناک کہے جاسکتے ہیں۔ جہاںتک ساری صورتحال کا معاملہ ہے تو یہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ ہے تاہم اس سے چونکہ طلبا بھی جڑے ہوئے ہیںاس لئے یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ فوری طور پر حکومت حرکت میںآئے اور طلبا کی تشویش اور ان کے اندیشوں کی سماعت کرے ۔ ان کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی جائے اور کوئی ایسا قابل قبول حل دریافت کیا جائے جس کے ذریعہ امن و امان کوبحال کیا جاسکے ۔ طلبا جامعات اور اپنی جماعتوںمیںواپسہسکے ہیں۔ تعلیم کا سلسلہ جو منقطع ہوگیا ہے اس کو بحال کیا جاسکے ۔ یونیورسٹیز دوبارہ کھل جائیں اور پرسکون ماحول دوبارہ بحال ہوجائے ۔ حکومت بنگلہ دیش کی جانب سے سرکاری ملازمتوںمیں تحفظات کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد طلبا برادری میںبے چینی پیدا ہوگئی ۔ گذشتہ ماہ کے اواخرسے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تاہم یہ صورتحال اس وقت شدت اختیار کر گئی جب حکومت مخالف مظاہرین کا جواب دینے حکومت موافق طلبا بھی سڑکوںپر اتر آئے اور انہوںنے بھی جوابی احتجاج شروع کیا ۔ ایک طرف پولیس احتجاجی طلبا سے نمٹ رہی تھی تو دوسری جانب حکومت کے مخالف اور حکومت کے حامی طلبا میں بھی جھڑپیں شروع ہوگئیں اور یہیں سے حالات تشویشناک حد تک بگڑ چکے ہیں۔
بنگلہد یش حکومت نے سرکاری ملازمتوںمیں ان سابق فوجیوںکے افراد خاندان کیلئے 30 فیصدکوٹہ مقرر کیا ہے جنہوںنے 1971 میں پاکستان کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سابق فوجی اور ان کے خاندان ان تحفظات کے حقدار ہیں کیونکہ انہوںنے ملک کے لئے جدوجہد کی تھی اور جنگ لڑی تھی ۔ تحفظات مخالف نوجوانوںاور طلبا کا کہنا ہے کہ یہ ان کی حق تلفی ہے اورتحفظات کا جو سسٹم ہے وہ میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہئے ۔ تحفظات کے ذریعہ کسی حقدار یا قابل طالب علم کوموقع سے محروم نہیںرکھا جانا چاہئے ۔ جہاں تک بنگلہ دیش حکومت کی بات ہے تو اس نے اب تک اپنے موقف میں کوئی نرمی پیدا نہیں کی ہے اور نہ ہی مصالحت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے بات چیت کا آغاز کیا ہے ۔ صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اور احتجاج سے نمٹنے کیلئے پولیس اور طاقت کا استعمال ہی کیا گیا ہے ۔ یہ طریقہ ایسا ہے جس پر از سر نوغور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو نوجوان اور طلبا حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں وہ بھی بنگلہ دیشی ہیں۔ ان کے اپنے بھی مطالبات ہوسکتے ہیں۔ ان کی اپنی بھی رائے ہوسکتی ہے اور اس رائے سے واقفیت حاصل کرنا چاہئے ۔ اس کا جائزہ لینا چاہئے اور جوباتیں قابل قبول ہوںان پر غور کرکے قبول بھی کیا جانا چاہئے ۔ یہی بات چیت کے ذریعہ راستہ نکالنے کا طریقہ کار ہونا چاہئے ۔ صرف طاقت کے استعمال سے ہر صورتحال کا حل دریافت نہیں کیا جاسکتا ۔ چونکہ معاملہ طلبا برادری اورنوجوانوں کا ہے اس لئے اس معاملے میں تاخیر بھی نہیں کی جانی چاہئے ۔ جتنی تاخیر ہوگی صورتحال اتنی بگڑتی چلی جائے گی ۔ انسانی جانوں کا اتلاف ہوگا اور اس کے تعلیم پر اثرات مرتب ہونگے ۔
یہ صورتحال بنگلہ دیش کیلئے خود بھی بہتر اس لئے نہیں ہوسکتی کہ بنگلہ دیش کی معیشت سدھار کے راستے پر گامزن ہے ۔ بنگلہ دیش کی کرنسی کی اہمیت میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے ۔ دوسرے پڑوسی ممالک سے بنگلہ دیش کی معیشت کی پیشرفت اچھی کہی جا رہی ہے ۔ اس صورتحال میں اگر نوجوان اور طلبا ہی حکومت کے خلاف نبردآزما ہوجائیںاور حکومت ان سے بات چیت کرنے کی بجائے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرتے تو ملک کی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال کو ذہن میںرکھتے ہوئے بات چیت کے ذریعہ صورتحال کوبہتر بنانے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ مذاکرات اور مصالحت کے راستے کواختیار کرتے ہوئے نوجوانوںکی تشویش کو دور کیا جاسکتا ہے ۔
بی آر ایس میں بے چینی
تلنگانہ میںاپوزیشن بھارت راشٹرا سمیتی میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور یہ اشارے مل رہے ہیں کہ پارٹی قیادت بی جے پی سے اتحاد یا بی جے پی میں انضمام پر غور کرنے لگی ہے ۔ حالانکہ خود پارٹی صفوںمیںاس تعلق سے اتفاق رائے نہیںہے لیکن یہ واضح ہوچکا ہے کہ پارٹی میں بے چینی کی صورتحال پیداہوگئی ہے ۔دس سال اقتدار میں رہنے کے بعداقتدار سے دوری کے چند مہینوں میںپارٹی کا وجود ہی خطرہ میںپڑ گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ سبق کچھ داخلی جمہوریت کے فقدان کانتیجہ ہے ۔ صرف چند افراد تک پارٹی کو محدود رکھنے کے نتیجہ میں پارٹی کے قائدین موجودہ صورتحال میں الجھن کا شکار ہیں۔ ابتداء سے یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ بی آر ایس قیادت راست یا بالواسطہ طور پر بی جے پی سے ذہنی ہم آہنگی رکھتی ہے اور مختلف امور پر مودی حکومت کی تائید و حمایت بھی کی گئی ہے ۔ اب اپنے سیاسی مستقبل کے تعلق سے فکرمند قیادت بی جے پی میں انضمام پر بھی غور کر رہی ہے ۔ پارٹی جو بھی فیصلہ کرے اس کا اپنا فیصلہ ہوگا لیکن یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی میں انضمام بی آر ایس کیڈر اور قائدین کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا اور اس سے قیادت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوسکتا ہے ۔