بنگلہ دیش ‘ نراج سے بچانا ضروری

   

Ferty9 Clinic

دشمن کی بغاوت کو الفت میں بدل دینا
باز آئو عزیزو تم نفرت سے کدورت سے
پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں صورتحال انتہائی سنگین ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ جہاں عوامی احتجاج کے روح رواں سمجھے جانے والے شریف عثمان ہادی کی موت ہوگئی وہیں ایک اور طلباء لیڈر محمد مطلب سکدر کو بھی گولی مار دی گئی ۔ شریف عثمان ہادی کی موت کے ساتھ ہی سارے بنگلہ دیش میں تشدد کی لہر پھوٹ پڑی ہے اور صورتحال کسی کے قابو میں دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ نوجوان اور طلباء برادری کی جانب سے زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں اور ملک کا عبوری انتظامیہ صورتحال پر اپنی گرفت بنانے میں ناکام نظر آتا ہے ۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں پیدا ہوئی ہے جب بنگلہ دیش میں نئے سال میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتخابات سے قبل اس طرح کے تشدد کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ صورتحال کو قابو میں کرنے کیلئے عبوری انتظامیہ کو جو کچھ ممکن ہوسکتا ہے وہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات سے قبل حالات کو قابو میں کیا جاسکے اور تشدد و اموات کا سلسلہ روکا جاسکے ۔ انتخابات سے قبل ایک پرامن ماحول تیار کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ اطمینان کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کرسکیں اور بنگلہ دیش میں ایک واقعی جمہوری اور عوامی منتخبہ حکومت کا قیام ممکن ہوسکے ۔ موجودہ صورتحال میں سابق وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیاء کی صحت بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور وہ مصنوعی تنفس پر رکھی گئی ہیں۔ تاہم ایک اہم تبدیلی یہ پیش آ رہی ہے کہ خالدہ ضیاء کے فرزند طارق رحمن بنگلہ دیش پہونچ رہے ہیں۔ طارق رحمن کافی وقت سے جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے ۔ وہ خالدہ ضیاء کے فرزند کے علاوہ ان کے جانشین ہیں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے صدر نشین بھی ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی جانب سے طارق رحمن کے استقبال کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ ان کی آمدک ے بعد صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ طارق رحمن بنگلہ دیشی عوام کو تسلی دی سکتے ہیں اور انہیں تشدد وبدامنی روکنے کا مشورہ دے سکتے ہیں ۔
بنگلہ دیش کی جوموجودہ صورتحال ہے اسے دھماکو قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ہر طرف نراج اور بدامنی کی کیفیت ہے ۔ سیاسی انتظامیہ موثر نہ رہنے کی وجہ سے حالات پر قابو پانے میں کسی کو کامیابی نہیں مل رہی ہے ۔ ابتدائی مراحل میں اپنے وجود کا احساس دلانے والے عبوری حکومت کے مشیر شیخ یونس بھی کوئی خاص اثر دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور وہ عوام کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ چکے ہیں۔ تشدد کا سلسلہ روکنا اور نوجوانوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کام کرنا ان کیلئے آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں اور ان کی بات کو زیادہ کچھ اہمیت بھی نہیں دی جا رہی ہے ۔ یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ طلباء برادری شیخ یونس پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ دوبارہ احتجاج کر رہی ہے اور تشدد کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔ یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ تشدد کی وجہ سے ملک میں انتخابات کا عمل متاثر ہوسکتا ہے اور انتخابات کے انعقاد میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ایسے میں انتخابی عمل کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے تشدد کو قابو پانے کیلئے سخت اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ضرورت پڑنے پر طلباء برادری سے بات چیت کی جانی چاہئے اور انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے انتخابی عمل کو آزادانہ ‘ منصفانہ اور موثر بنانے کی حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے ۔ ایسا کرنا ملک میں امن و امان کے قیام کیلئے ضروری ہے اور انتخابی ماحول کو بھی قابل قبول بنانے کی سمت پیشرفت ہوسکتی ہے ۔ تشدد کے بڑھتے ہوئے اور نراج و بدامنی کے حالات میں انتخابی عمل متاثر ہونے کے اندیشے برقرار رہیں گے ۔
آج بنگلہ دیش میں جو حالات پائے جاتے ہیں وہ آئندہ حالات کیلئے بھی سازگار نہیں کہے جاسکتے ۔ جب ملک میں انتخابات ہونگے اور عوام کے ووٹ سے کوئی حکومت قائم ہوگی تو اس کیلئے پھر حالات کو بہتر بنانا آسان نہیں رہ جائے گا ۔ ملک کو معمول کی راہ پر لاتے ہوئے کافی وقت درکار لگ جائیگا اور اس کے نتیجہ میں ملک کے معاشی استحکام ‘ عوامی بہتری اور دیگر امور متاثر ہوسکتے ہیں۔ خود بنگلہ دیش کے نوجوانوں اور طلباء کو بھی چاہئے کہ وہ شدت پسندی کا شکار ہونے کی بجائے تحمل اور برد باری سے کام لیں اور حالات کو جتنا جلد ممکن ہو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔ یہی بنگلہ دیش کے مفاد میں ہے ۔