ایک ہوکر دشمنوں پر وار کرسکتے ہیں ہم
خون کا بھرپور دریا پار کرسکتے ہیں ہم
بنگلہ دیش میں حالات ایک بار پھر سے کشیدہ ہوگئے ہیں۔ شیخ حسینہ حکومت کے خلاف احتجاج کی شروعات کرنے والے لیڈر شریف عثمان ہادی کی سنگاپور میں موت کے بعد اچانک احتجاج شروع ہوگیا جس نے پر تشدد موڑ اختیار کرلیا ۔ جہاں ایک شخص کو ہجومی تشدد میں ہلاک کردینے کے بعد اس کی نعش کو نذر اتش کردیا گیا وہیں کچھ اخبارات اور میڈیا دفاتر کو بھی توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا ۔ ان پر حملے کئے گئے اور وہاں ہنگامہ آرائی کی گئی ۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کے سابق رہنما شیخ مجیب الرحمن کی قیامگاہ کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ احتجاجی ملک کے کئی شہروں میں سڑکوں پر اتر آئے اور انہوں نے آگ زنی اور ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے ۔ اس ساری صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ عبوری حکومت ایسے عناصر پر قابو کرنے میں ناکام رہی ہے جو تشدد کا رجحان رکھتے ہیں۔ شدت پسندی کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس وقت سے بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹا گیا ہے اور شیخ حسینہ ملک سے فرار ہو کر ہندوستان میں پناہ گزین ہوئی ہیں اس کے بعد سے ہی صورتحال اور خاص طور پر لا اینڈ آرڈر پر عبوری حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ حکومت کسی ایک شعبہ میں اپنی گرفت مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری کئی شعبہ جات اس کے قابو سے باہر ہونے لگے ہیں۔ بنگلہ دیش میںحالانکہ انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے تاہم جو واقعات پیش آ رہے ہیں اور حالات جو تبدیلی اختیار کر رہے ہیں وہ ناقابل بیان کہے جاسکتے ہیں اور کئی گوشوںکو انتخابی عمل کے تعلق سے بھی شبہات لاحق ہوگئے ہیں۔ 22فبروری کو بنگلہ دیش میں انتخابات ہونے والے ہیں اور اس سے قبل تشدد اور آگ زنی کے واقعات قابل تشویش ہیں۔ اس سے عبوری انتظامیہ اور حکومت کی ناکامی کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔ ان حالات میں یہ شبہات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ انتخابی عمل کا بھی پرسکون اور پرامن انداز میں انعقاد آسان نہیں ہوگا اور یہ انتخابی عمل غیر جانبدار ہونے کے تعلق سے بھی شبہات کا اظہار کیا جانے لگا ہے ۔ یہ عبوری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل کو موثر اور غیرجانبدار بنائے ۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے مشیر محمد یونس کے قریبی ساتھی اور صحافتی مشیر شفیق العالم نے ان واقعات اور تشدد پر معذرت خواہی کی ہے اور کہا کہ کئی صحافیوں نے بھی ان سے مدد کیاپیل کی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ حالات کو قابو میں کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لئے معذرت خواہ ہیں۔ عبوری حکومت کے مشیر کی معذرت خواہی حالات کو بہتر بنانے میں معاون نہیں ہوسکتی اور نہ ہی عبوری حکومت محض ایک معذرت خواہی سے بری الذمہ ہوسکتی ہے ۔ ایک ایسے وقت جب ملک میں انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اور کئی گوشوں سے اس پر شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں اس طرح کے حالات صورتحال کی سنگینی کو ہی ظاہر کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں حالات مزید بگڑنے کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ عبوری انتظامیہ کو معذرت خواہی کے ساتھ اپنی ناکامی کا بھی اعتراف کرتے ہوئے کوئی متبادل انتظام کرنے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حالات کو ممکنہ حد تک بہتر بنایا جاسکے ۔ یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات اور نئی حکومت کی تشکیل تک حالات پوری طرح سے قابو میں نہیں آئیں گے تاہم نئی حکومت کے قیام تک حالات کو ممکنہ حد تک قابو میں رکھنا عبوری حکومت کا ذمہ ہے اور اسے اس ذمہ داری کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہئے ۔ حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے پر بھی حکومت کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فبروری میں ہونے والے انتخابات کے تعلق سے جو شبہات پیدا ہو رہے ہیںا ن کا ازالہ ممکن ہوسکے ۔
جو عبوری حکومت ہے اسے سب سے پہلے تشدد پر قابو پانے اقدامات کرنے چاہئیں۔ جو آگ زنی اور دیگر واقعات پیش آ رہے ہیں ان کی روک تھام پر توجہ کی جانی چاہئے ۔ حکومت کو اپنے طرز عمل اور طرز کارکردگی میں تبدیلی بھی لانے پر غور کرنا چاہئے ۔ اگر حالات مزید قابو سے باہر ہوتے ہیں تو پھر آئندہ تشکیل پانے والی حکومت کیلئے بھی انہیں سنبھالنا اور بہتر بنانا مشکل ہوجائے گا ۔ موجودہ عبوری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی ذہنی تحفظ کا شکار ہوئے بغیر کام کرے اور ملک میں امن و امان کے قیام کیلئے ہر ضروری اقدام کرے اور اس بات کو یقینی بناکہ انتخابی عمل پر اس کے کوئی منفی اثرات مرتب ہونے نہ پائیں۔
