بالآخر پولیس نے نوح اور میوات میں ہوئے فرقہ وارانہ واقعات کے سلسلہ میں بجرنگ دل کے کارکن اور گئو رکھشا دل کے سربراہ بٹو بجرنگی کو گرفتار کرلیا ہے ۔ بٹو بجرنگی پر الزام تھا کہ اس نے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے ماحول کو خراب کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ بٹو بجرنگی کے آڈیو اور ویڈیو کلپس کئی دن سے سوشیل میڈیا میں گشت کر رہے تھے جس میں میوات اور نوح کے عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کے تعلق سے انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ وہ نوح اور میوان پہونچنے والے ہیں اور ان کا استقبال کرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ نہ صرف بٹو بجرنگی بلکہ سابق میں دو مسلم نوجوانوں کے اغواء اور قتل کے مقدمہ میں مطلوب مونو مانیسر بھی پولیس کو مطلوب ہے ۔ اس کے تعلق سے بھی اب تک پولیس نے نرم رویہ ہی اختیار کیا ہوا تھا ۔ بٹو بجرنگی مسلسل کئی مرتبہ اشتعال انگیزیوں میں ملوث رہا ہے ۔ اس کے سوشیل میڈیا پوسٹ کے ذریعہ بھی نفرت پھیلانے سے گریز نہیں کیا جا رہا تھا ۔ اس سارے معاملے کو پولیس نے اگر بروقت موثر ڈھنگ سے دیکھا ہوتا اور مناسب کارروائی کی ہوتی تو پھر یہ معاملہ اس حد تک نہیں بگڑتا اور فرقہ وارانہ واقعات کو ٹالا جاسکتا تھا ۔ جو انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں انہیں بچایا جاسکتا تھا اور جائیداد و املاک کے نقصان سے بچا جاسکتا تھا ۔ تاہم فرقہ پرستوں اور شرپسندوں کے تعلق سے پولیس کے نرم رویہ کی وجہ سے ہی ملک میں ایک سے زائد مقامات پر حالات متاثر ہوئے ہیں اور فرقہ وارانہ فسادات بھڑک رہے ہیں۔ بٹو بجرنگی کا پورا ریکارڈ عوام کے سامنے ہیں کہ کس طرح سے وہ وقفہ وقفہ سے حالات کو بگاڑنے اور خراب کرنے کے اقدامات کرتا ہے ۔ کس طرح سے سماج کے دوا ہم طبقات کے مابین نفرت اور اشتعال پھیلانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس سے سارا ماحول متاثر ہوتا ہے اور نوجوانوں کے ذہن پراگندہ ہوجاتے ہیں۔ وہ اشتعال میں آکر کچھ ایسی کارروائیاں کر بیٹھتے ہیں جن سے امن متاثر ہوجاتا ہے اور فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ ایسا صرف نوح یا میوات میں نہیں ہوا ہے ۔ ملک میں کئی اور مقامات پر بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔
عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے کیلئے سوشیل میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے ۔سوشیل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس کے ذریعہ حالات کو متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ سماج میں نفرت پیدا کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ حالات کو بگاڑ کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور اپنی دوکان چمکانے سے گریز نہیں کیا جاتا ہے ۔ ایسے معاملات میں پولیس کو فوری اور مستعدی سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اب تک پولیس نے ایسا نہیں کیا ہے ۔ کئی معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ پولیس فرقہ وارانہ ماحول کو متاثر کرنے والوں کے خلاف جامع اور موثر کارروائی کرنے کی بجائے ان کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حالات متاثر ہوجاتے ہیں اور شرپسند عناصر کے حوصلے بلند ہونے لگتے ہیں۔ ان میں قانون کا ڈر و خوف باقی نہیں رہتا اور وہ خود کو ماورائے قانون اتھاریٹی سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے سے گریز نہیں کرتے ۔ ایسے معاملات نے سماج میں بہت دوریاں پیدا کردی ہیں۔ ماحول کو پراگندہ کرنے میں ان کا اہم رول رہا ہے ۔ بٹو بجرنگی ہو یا پھر مونو مانیسر ہوں یا پھر کسی اور طبقہ سے تعلق رکھنے والے شرپسند عناصر ہوںان کے تعلق سے پولیس کو نرم رویہ اختیار کرنے کی بجائے سختی سے اور قانون کے مطابق پیش آنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے عناصر کو سخت سزائیں دلاتے ہوئے دوسروں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے ۔
اب جبکہ بٹو بجرنگی کو گرفتار کرلیا گیا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ مونو مانیسر کے خلاف بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا جائے ۔ ملک بھر میں جتنے بھی شرپسندوں نے ماحول کو خراب کرنے میں کوئی بھی رول ادا کیا ہو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے ۔ انہیں عدالتوں میں پیش کرتے ہوئے موثر پیروی کے ذریعہ سخت سزائیں دلانے سے گریز نہ کیا جائے ۔ کسی طرح کے سیاسی دباؤ کو قبول کرنے کی بجائے دستوری اور قانونی ذمہ داریوں کو پورا کیا جائے ۔ ملک کے ماحول کو مزید متاثر ہونے اور نوجوانوں کے ذہنوں کو مزید پراگندہ ہونے سے بچانے کیلئے نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی موثر کارروائیاں ضروری ہیں۔